رسائی کے لنکس

سندھ : 'کم عمری کی شادی' کیخلاف 'قانون' ضروری کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایک اندازے کے مطابق سندھ بھر میں سال 2013ء میں 300 سے زائد کم عمری کی شادیوں کے کیسز سامنے آئے تھے جسکی وجہ پاکستان میں 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیاں جرم تصور نہیں کی جاتیں۔

رواں ہفتے میں سندھ کی صوبائی اسمبلی میں کم عمری کی شادی کےخلاف قرارداد منظور کر لی گئی ہے جبکہ اسکے خلاف باقاعدہ قانون بننا ابھی باقی ہے۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ سندھ اسمبلی کے آئندہ ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں 'کم عمری کی شادیوں' کیخلاف اس بل کو باقاعدہ ایکٹ یعنی 'قانون' کی شکل دے دی جائے گی۔

پاکستان کے اہم صوبے سندھ میں 'کم عمری کی شادی کے خلاف بل‘ انتہائی ضروری تصور کیا جا رہا ہے۔ سندھ کی آبادی کی اکثریت دیہاتوں میں بستی ہے جہاں شعور کے فقدان کے سبب والدین بچوں اور بچیوں کی کم عمری میں ہی شادیوں پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

ان علاقوں میں تعلیم کی کمی، شعور کے فقدان اور دیگر معلومات نہ ہونے کے سبب کم عمری کی شادیاں کوئی جرم تصور نہیں کی جاتیں وہیں والدین اور خاندان کی جانب سے کم عمری کی شادیوں کے بعد ہونے والے مسائل کے بارے میں بھی آگہی کا فقدان ہے۔


سندھ ہائی کورٹ کی سابق خاتون جج ریٹائرڈ جسٹس ماجدہ رضوی وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہتی ہیں کہ، ’شادی کیلئے کم از کم 18 سے 20 سال کا ہونا ضروری ہے۔ اگر اس سے کم عمر میں شادی کی جائے تو انسان کی ذہنی و جسمانی سطح متاثر ہوتی ہے اور انسان اس عمر میں ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھا سکتا ہے‘۔

ماجدہ رضوی کا کہنا ہے کہ، ’ہمارے ہاں کم عمری میں شادی کے رجحان کی وجہ یہ ہے کہ والدین لڑکیوں کو زیادہ دیر گھر بٹھانے کے روادار نہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ لڑکیاں چھوٹی عمر میں ہی جلد سے جلد اپنے گھر کی ہو جائیں تو اچھا ہے جبکہ ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا‘۔

ماجدہ رضوی کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کی بچیاں چھوٹی عمر میں شادیوں کے باعث کم عمر میں مائیں بن جاتی ہیں جس کے بعد انہیں صحت کے اعتبار سے بھی کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ماہرین کے نزدیک ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کم عمر مائیں اکثر تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہوتیں۔ یوں اگر زندگی میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو شعور کی کمی کی وجہ سے ناخواندہ خواتین اس سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوتیں۔

ماجدہ رضوی کا کہنا ہے کہ اسلامی قوانین کے مطابق صرف جسمانی طور پر بالغ ہونا ضروری نہیں بلکہ دماغی طور پر بھی سمجھدار ہونا ضروری ہے۔

چائلڈ رائٹس پراٹیکشن موومنٹ سندھ کے ترجمان مدنی میمن نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ سے گفتگو میں کہا کہ، ’اس قانون کا نفاذ انتہائی ضروری ہے‘۔ بقول ان کے، ’کم عمری کی شادیوں کی ایک بڑی مثال تھر پارکر ہے جہاں قحط اور غذائی قلت اپنی جگہ مگر بچوں میں قوت ِمدافعت اور بیماریوں کا حملہ ان بچوں میں پیدائشی کمزوری بھی ہے جسکے باعث تھرپارکر کے درجنوں بچے باعث موت کے منہ میں چلے گئے‘۔

مدنی میمن کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ’کم عمری میں ہونے والی شادیوں کے سبب ان ماؤں کے ہاں کمزور بچے پیدا ہوتے ہیں۔ تھرپارکر سمیت سندھ کے اندرونی شہروں میں 12 سے 15 سال تک کی عمر میں لڑکیوں کی شادیاں کر دینے کا رجحان عام ہے‘۔

اکثر گاؤں دیہاتوں میں پیسوں کے بدلے اور زمینوں کے بدلے بھی لڑکیوں کی شادی کر دینا اور وٹہ سٹہ کے بدلے ایسے کیسز اکثر سامنے آتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق سندھ بھر میں سال 2013ء میں کم عمری کی شادیوں کے 300 سے زائد کیسز سامنے آئے تھے۔

ماہرین کا مطالبہ تھا کہ کم عمری کی شادیاں انسانی حقوق سمیت خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے جبکہ اسکے خلاف باضابطہ قوانین بنا کر عملدرآمد کرایا جائے۔

واضح ہو کہ اس سے قبل سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی کم عمری کی شادی کیخلاف قانون تشکیل دینے اور ایسی شادیاں کروانے والے والدین کےخلاف قانونی کارروائی کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
XS
SM
MD
LG