بوسٹن میراتھون دوڑ پر حملے کے مجرم زوخار سارنیف، جنھیں سنہ 2013میں تین افراد کو ہلاک کرنے اور 264 کو زخمی کرنے پر سزا سنائی جاچکی ہے، اُن کے وکلا اب یہ التجا کر رہے ہیں کہ اُن کے خلاف ایک نئے مقام پر مقدمہ چلایا جانا چاہیئے، چونکہ اُن کے خلاف چلائی گئی مقدمے کی کارروائی کے دوران، بقول اُن کے، اُن کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔
پیر کے روز شام گئے عدالت میں جمع کرائے گئے کاغذات کے مطابق، 22 برس کے مجرم کے وکلا نے کہا ہے کہ دھماکے کی اخباری رپورٹیں اور اس کے بعد ملنے والی منفی تشہیر ایسی تھی کہ 12 ارکان پر مشتمل ججوں نے 15 اپریل 2013ء کے دھماکوں میں سارنیف کو قصور وار قرار دیا، اور پھر آپسی ووٹ کے ذریعے اُنھیں موت کی سزا دی گئی۔
بوسٹن کی وفاقی ضلعی عدالت میں جمع کرائی گئی 39 صفحات پر مشتمل استدعا میں، وکلا نے استدلال پیش کیا ہے کہ ’مستقل اور ناگوار تشہیر، بشمول ججوں اور بوسٹن میراتھون بم حملوں کے واقعات میں سرایت کرنے والی وابستگیاں، واقعاتی طور پر اور حقائق کی بنیاد پر قانونی چارہ جوئی، سب اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایک مختلف مقام پر نیا مقدمہ چلایا جانا چاہیئے‘۔
دلائل اور جولائی میں نئے مقدمے کی پیش کردہ استدعا میں مقدمے کی کارروائی کے دوران وکلا کے دلائل کی میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں ایسی سخت ہیں کہ ایک غیروابستہ جیوری کے تقرر کی اجازت ملنا مشکل تھی؛اور وفاقی جج ان کے دلائل کو بارہا مسترد کرتے رہے۔
زوخار چھوٹے بھائی ہیں، جنھوں نے میراتھون دوڑ کی اختتامی لائن پر دو خودساختہ پریشر بم حملہ کیے اور تین روز بعد بوسٹن سے باہر بھاگنے کی کوشش کے دوران یونیورسٹی کے ایک پولیس اہل کار کو گولی مار کر ہلاک کیا۔ چھبیس سالہ بڑا بھائی، تمرلان 19 اپریل 2013ء کو اُس وقت ہلاک ہوا جب علی الصبح اُن کے اور پولیس کے درمیان گولیوں کا تبادلہ ہوا۔
زوخار کے وکلا نے مقدمے کے دوران حقائق سے کبھی انکار نہیں کیا، بلکہ وہ یہی کوشش کرتے رہے کہ اُنھیں موت کی سزا نہ ہو۔ جون میں جب ایک جج نے اُنھیں موت کی سزا سنائی، تو زوخار نے عدالت کے سامنے اپنے کیے پر معافی طلب کی۔