لاہور کی فیملی کورٹس میں آنے والی چار بچوں کی ماں، صغراں (فرضی نام) کے چار بچے ان کے سابق شوہر کے پاس ہیں اور آج جمعے کے روز عدالت کے حکم کے مطابق صغراں کی ملاقات ان کے بچوں سے ہونا تھی۔ لیکن یہ ملاقات ان کے وکیل کی غیر موجودگی کی وجہ سے نہیں ہو سکی۔ عدالت نے انہیں ملاقات کے لئے سردی کی چھٹیوں کے بعد کی تاریخ دے دی۔
بدھ کے روز پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں ہونے والے واقعے کے بعد پنجاب بھر کے وکلا نے اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی تک ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے سائلین عدالتوں کے احاطے میں پریشان ہوتے رہے۔
صغری کہتی ہیں، ’’آج میں اپنے بچوں سے ملنے عدالت آئی تھی، جنہیں ان کے باپ نے جج صاحب کے سامنے مجھے ملوانا تھا۔ لیکن، وکلا کی ہڑتال کی وجہ سے نہ تو میرا وکیل عدالت میں پیش ہوا اور نہ ہی میرا سابق شوہر میرے بچوں کو مجھ سے ملانے کے لیے عدالت لایا۔ اب جج صاحب کی طرف سے اگلے مہینے کی تاریخ دے دی گئی ہے۔ مجھے کیا پتا کہ وکیلوں نے ڈاکٹروں کو مارا یا ڈاکٹروں نے وکیلوں کو۔ مجھے کوئی بتائے میں اپنے بچوں سے کیسے ملوں‘‘۔
لاہور کے ایوان عدل میں اپنے کیسز کی سماعت کے لیے چند سائلیں تو موجود تھے۔ لیکن عدالتوں میں کیسز کی سماعت وکلا کی ہڑتال کی وجہ سے نہ ہو سکی اور عدالتوں کی طرف سے سائلین کو اگلی تاریخیں دے دی گئیں۔
ایوان عدل میں اپنے بینچوں پر بیٹھے سرد موسم میں گرم گرما چائے پینے والے دو نوجوان وکیلوں نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں پی آئی سی واقعے پر ’کوئی شرمندگی نہیں ہے‘ اور ’ینگ ڈاکٹرز کو ان کے کیے کی سزا ملنی چاہیے تھی‘۔
بدھ کے روز وکلاء اور پی آئی سی کے اسٹاف کے درمیان ہونے والے تصادم کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے مریضوں کے بارے میں ان نوجوان وکیلوں کا کہنا تھا کہ اس واقعہ سے ایک دن پہلے پی آئی سی میں سات مریضوں کی اموات ہوئی تھیں۔ ’’کیا وہ بھی وکیلوں کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ کیا ان کا علاج بھی وکلاء کی وجہ سے متاثر ہوا تھا‘‘۔
وکلاء کی ہڑتال اور ان کے سائلین پر اثرات کے بارے میں کہنا تھا کہ ’’اسپتالوں میں جب ڈاکٹر ہڑتال کرتے ہیں، تو کیا اس ہڑتال سے مریض متاثر نہیں ہوتے۔ کیا ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے مریضوں کی زندگیاں داؤ پر نہیں لگتیں۔ اگر ہم نے ہڑتال کردی تو کونسی قیامت آگئی ہے‘‘۔
ہڑتال کے ان کے اپنے پیشے پر اثرات سے متعلق ایک نوجوان وکیل کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا روزگار تو ویسے بھی 'اللہ توکل' ہی ہوتا ہے۔ کبھی کوئی کیس مل جائے تو مل جائے ورنہ یہاں آتے ہیں۔ گپیں مارتے ہیں اور گھر واپس چلے جاتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹروں کے ساتھ ہونے والے تصادم کے بارے میں ایک نوجوان وکیل کا کہنا تھا کہ ’’پہلے جب کسی قتل کے کیس میں یا پوسٹ مارٹم کے کیس میں کوئی ڈاکٹر گواہی دینے عدالت آتا تھا، تو ہم اسے عزت دیتے تھے۔ اسے اپنی کرسی پیش کرتے تھے۔ اب ہم ان ڈاکٹروں کو بھی عدالت میں آنے والے دوسرے گواہوں کی طرح چھ سات گھنٹے انتظار کروائیں گے۔ پھر انہیں اندازہ ہوگا کہ انہوں نے کن سے پنگا لیا ہے‘‘۔
پی آئی سی واقعے سے متعلق جب ایک سینئر وکیل چوہدری محمد یوسف سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے پہلے ایک ویڈیو دکھائی، جس میں نوجوان ڈاکٹر بدھ کے روز پی آئی سی میں ہونے والے تصادم کے بعد مبینہ طور پر جشن منا رہے تھے۔
ویڈیو دکھانے کے بعد چوہدری محمد یوسف کا کہنا تھا کہ ’’آپ کو لگتا ہے کہ ایسی ویڈیو دیکھنے کے بعد وکلا آرام سے بیٹھ سکتے ہیں؟‘‘
لاہور کے امراض قلب کے اسپتال میں وکلا کی ہنگامہ آرائی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور اس سے پہلے وکلا کے پولیس اور صحافیوں کے ساتھ تصادم اور ججوں کی پٹائی کے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں۔
وکلا کی ہنگامہ آرائی اور رویوں سے متعلق سینئر قانون دان سعد رسول کا کہنا ہے کہ وکلا بظاہر تعلیم یافتہ لوگ لگتے ہیں۔ لیکن، انہیں نہ تعلیم یافتہ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی تہذیب یافتہ اور نہ ہی کسی اور تمدن میں ان کی بات ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، سعد رسول کا کہنا تھا کہ ’’وکلا کے پاس ڈگریاں ضرور ہیں۔ لیکن، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے پاس تعلیم بھی ہے‘‘
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم سے بھی زیادہ جو وکلا بارز کے کلچر کے مسائل ہیں، وہ کلچر جو کہ 2007 کی وکلا تحریک کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مبینہ سرپرستی میں وکلا نے شروع کیا۔ بقول ان کے، ’’اس وقت کے وکلا برادری اور جج صاحبان جن میں افتخار چوہدری سر فہرست تھے، آج ہم ان کے ثمرات ہی دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں وکلا کا وطیرہ بن چکا ہے‘‘۔
وکلا کی بارز اور ایسوسی ایشن کے کردار پر سعد رسول کا کہنا تھا کہ ’’جو اس وقت بار کے عہدیدار تھے اور جو آج کے عہدیدار ہیں۔ وہ سب اس کے ذمہ دار ہیں‘‘۔
بار کی سیاست اور ان میں وکلا کی نمائندگی سے متعلق سعد رسول نے سخت الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کی پریکٹس اس چیز پر منحصر ہوتی ہے کہ کون سیشن جج کو ڈرا دھمکا کر من پسند آرڈرز لے سکتا ہے‘‘۔
سعد رسول کے بقول، ’’جب تک بینچ سے اس طرح کے فیصلے آتے رہیں گے کہ کسی اور کے خلاف تو توہین عدالت کی کارروائی کی جا سکتی ہے، لیکن، وکلا کے خلاف ایسی کارروائی نہیں کی جائے گی، تب تک اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے‘‘۔
بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور معاشرے کے دو تعلیم یافتہ طبقات کے درمیان ہونے والے تصادم کے بارے میں ماہر سماجیات اور اوکاڑہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذکریا ذاکر کا کہنا ہے کہ ’’تصادم تب ہوتا ہے جب افراد کا اداروں پر بھروسہ ختم ہو جاتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر ذکریا کا کہنا ہے کہ ’’یہ ادارے ہی ہوتے ہیں جو افراد کے درمیان کردار ادا کرتے ہیں اور جب بھروسہ کم ہوتا ہے تو افراد قانون ہاتھ میں لیتے ہیں‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس کے علاوہ، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جب ٹاپ پوزیشنز پر بیٹھے لوگ مغرور رویہ اختیار کرتے ہیں تو یہ رویہ نچلی سطح پر منتقل ہوتا ہے‘‘۔ ان کے بقول، تشدد ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں پر انسانی حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا۔
پی آئی سی واقعہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تشدد ہمارے معاشرے میں 'اسٹیٹس سمبل' بن چکا ہے، اور تشدد کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ لوگوں کے پاس جب دلیل نہیں ہوتی تو وہ متشدد ہوتے ہیں۔
واقعے سے متعلق ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’یہ واقعہ ہمارے لیے ایک پیمانہ ہے کہ کس طرح سے ہمارے معاشرے میں مذاکرات کا کلچر ختم ہو چکا ہے، برداشت کم ہو چکی ہے اور کس طرح ہم ایک مغرور اور متشدد رویہ اپناتے ہیں‘‘۔