رسائی کے لنکس

لاہور: ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار 46 وکلا جیل منتقل


وکلا کے چہرے ڈھانپ کر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔
وکلا کے چہرے ڈھانپ کر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔

لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بدھ کو ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں گرفتار 46 وکلا کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

پنجاب پولیس نے پی آئی سی میں ہنگامہ آرائی کے ملزمان کو جمعرات کو لاہور میں قائم انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا۔ ملزمان کو ہتھکڑی لگا کر عدالت لایا گیا جب کہ ان کے چہرے بھی کالے کپڑوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔

عدالت نے مختصر سماعت کے بعد وکلا کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بار نے گرفتار وکلا کی رہائی کے لیے عدالتِ عالیہ میں درخواست دائر کر دی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر حفیظ الرحمان چوہدری اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پولیس نے پی آئی سی کے باہر وکلا پر پرامن احتجاج کے دوران تشدد کیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور ڈاکٹرز نے وکلا کو تشدد سے زخمی کیا اور وکلا کے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کر کے ان میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔

درخواست کے مطابق، کئی وکلا کو مقدمات درج کیے بغیر ناجائز حراست میں رکھا گیا ہے۔ لہٰذا، گرفتار وکلا کو رہا کیا جائے اور ان کا علاج کرانے کی اجازت دی جائے۔

مذکورہ درخواست کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ کل بروز جمعہ کرے گا۔

اس سے قبل پولیس نے جمعرات کو دو سو سے زائد وکلا کے خلاف دو مقدمات درج کیے تھے۔

پہلا مقدمہ اسپتال کے ایک ملازم کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جس میں انسداد دہشت گردی، کار سرکار میں مداخلت، بلوہ کرنے، ہوائی فائرنگ کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، خواتین پر حملہ کرنے اور سرکاری مشینری کو نقصان پہنچانے کی 11 دفعات شامل ہیں۔

ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ وکلا زبردستی اسپتال کے اندر داخل ہوئے اور مختلف ٹولیوں میں بٹ کر اسپتال کے مختلف شعبوں میں داخل ہو گئے۔

متن میں کہا گیا ہے کہ وکلا نے سیکیورٹی گارڈز، میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر صاحبان کو زد و کوب کیا اور اسپتال کے قیمتی آلات کی توڑ پھوڑ کی، جس کے بعد اسپتال میں داخل دل کے مریضوں کو دی جانے والی ادویات کی ترسیل بھی معطل ہوئی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ وکلا اسپتال سے متصل نرسنگ ہاسٹل میں بھی داخل ہوئے اور وہاں انچارج ہاسٹل کی قمیض پھاڑ دی اور گلے میں پہنا ہوا لاکٹ چھین لیا۔ وکلا نے نرسوں کو غلیظ گالیاں بھی دیں۔

وکلا پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ دو گھنٹے تک وکلا نے اسپتال اور اس سے ملحقہ علاقے میں دہشت پھیلانے کے لیے آتشیں اسلحے سے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

ایف آئی ار کا عکس
ایف آئی ار کا عکس

دوسرا مقدمہ پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں پولیس وین جلانے اور پولیس پر حملے سے متعلق دفعات شامل کی گئی ہیں۔

خیال رہے کہ بدھ کو سیکڑوں وکلا نے لاہور میں صوبہ پنجاب کے سب سے بڑے دل کے اسپتال پر دھاوا بول دیا تھا۔ وکلا اسپتال کا مرکزی دروازہ توڑ کر زبردستی اندر داخل ہو گئے تھے، جہاں وکلا اور ڈاکٹروں کے درمیان تصادم کے باعث اسپتال کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ وکلا اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ اور آپریشن تھیٹر میں بھی داخل ہو گئے تھے۔

وکلا نے موقع پر پہنچنے والے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو بھی دھکے دیے اور ان کے بال نوچے۔

وکلا کے دھاوے کے باعث ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کام چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث ایک خاتون سمیت تین افراد کی جان جانے کی تصدیق کی تھی۔

وکلا اور ڈاکٹروں کے درمیان تنازع کا آغاز 23 نومبر کو ہوا تھا جب اطلاعات کے مطابق، چند وکلا نے پی آئی سی میں مفت ادویات کا تقاضا کیا، جس سے انکار پر وکلا اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں کے درمیان لڑائی ہوئی اور ڈاکٹرز کی جانب سے بعض وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بعدازاں، پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت اور اعلٰی پولیس حکام کی مداخلت کے بعد فریقین کے درمیان صلح ہو گئی۔ البتہ، چند روز قبل اسپتال کے ایک ڈاکٹر کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ڈاکٹر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وکلا پی آئی سی میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کر سکتے۔

ویڈیو میں مذکورہ ڈاکٹر وکلا کی نقلیں بھی اتار رہا ہے۔ ویڈیو وائرل ہونے پر مشتعل وکلا نے بدھ کو اسپتال میں دھاوا بول دیا۔

واقعے کے بعد وکلا کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے پر لوگ شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

وزیر اعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار کی ہدایت پر واقعے کی تحقیقات کے لیے پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں اعلٰی سطحی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔

لاہور میں وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا الرحمٰن کا کہنا ہے کہ بدھ کے حملے بعد سے ہی ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے اسپتال میں کام چھوڑ رکھا ہے، جس سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم، گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مطابق اسپتال کا آؤٹ ڈور، شعبہ ادویات سمیت دیگر شعبوں کو بند رکھا گیا ہے۔ البتہ، جن مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے انہیں انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں مریضوں کو اسپتال سے ڈسچارج بھی کر دیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG