واشنگٹن —
مصر کی ایک عدالت نے سابق حکمران جماعت 'اخوان المسلمون' کے سربراہ محمد بدیع اور تنظیم کے کئی اعلیٰ رہنماؤں کے خلاف مظاہرین کو تشدد پر اکسانے سمیت کئی الزامات کے تحت مقدمے کی سماعت کا آغاز کردیا ہے۔
حکام نے 'اخوان المسلمون' کے مرشدِ عام کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے 70 سالہ محمد بدیع کو رواں سال جولائی میں صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد حراست میں لیا تھا جس کے بعد پیر کو انہیں پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا۔
محمد بدیع کے ہمراہ اخوان کی سیاسی جماعت 'فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی' کے کئی اعلیٰ رہنماؤں کو بھی قاہرہ کی پولیس اکیڈمی میں قائم کی جانے والی اس خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں گزشتہ ماہ معزول صدر محمد مرسی کے خلاف مقدمے کی سماعت ہوئی تھی۔
پیر کو اخوان کے مرشدِ عام کے ہمراہ عدالت میں پیش ہونے والوں میں سیاسی جماعت کے نائب چیئرمین اعصام العریان، محمد البلتاجی اور مرسی حکومت کے وزیر بسام عودہ بھی شامل تھے۔
دورانِ سماعت 'اخوان المسلمون' کے مرشدِ عام نے اپنی جماعت پر تشدد میں ملوث ہونے کے الزامات مسترد کیے جب کہ اخوان کے رہنما مقدمے کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں وقفے وقفے سے فوجی جنرلوں کے خلاف سخت نعر ےبازی کرتے رہے۔
ملزمان کے لیے بنائے گئے پنجرے نما کٹہرے میں موجود محمد بدیع نے عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے بیٹے کے قتل اور ان کے گھر اور اخوان کے دفاتر کو نذرِ آتش کیے جانے کے واقعات کی تحقیقات کریں۔
خیال رہے کہ محمد بدیع کے 38 سالہ بیٹے 17 اگست کو قاہرہ میں ہونے والے ایک مظاہرے کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کاروائی میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اخوان کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ مرشدِ عام کے بیٹے کو ہدف بنا کر گولی ماری گئی تھی۔
فوجی جنرلوں کے حامی مظاہرین نے محمد مرسی کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد قاہرہ میں محمد بدیع کی رہائش گاہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں قائم اخوان المسلمون کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد انہیں نذرِ آتش کردیا تھا۔
'اخوان المسلمون' سے تعلق رکھنے والے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف تین جولائی کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے مصر کی سب سے منظم اسلام پسند جماعت کے خلاف فوج اور پولیس کا سخت کریک ڈاؤن تاحال جاری ہے جس میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم سکیورٹی کریک ڈاؤن میں اخوان کے تمام اعلیٰ رہنماؤں اور سیکڑوں سرگرم کارکنوں کی گرفتاریوں کے باوجود معزول صدر کے حامی ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔
پیر کو بھی قاہرہ میں قائم مصر کے مایۂ ناز اور تاریخی تعلیمی ادارے 'جامعہ الازہر' کے ہزاروں طلبہ نے فوجی بغاوت کے خلاف جلوس نکالا جس کے شرکا اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور 58 طلبہ کو حراست میں لے لیا۔ ایک پولیس افسر کے مطابق مظاہرے میں شریک طلبہ نے پولیس کی تین گاڑیوں کو آگ لگادی۔
دریں اثنا مصر کے ایک اخبار نے رپورٹ دی ہے کہ ملک کی عبوری حکومت 'اخوان المسلمون' کے رہنماؤں اور ارکان کے 62 نجی اسکولوں کو اپنی تحویل میں لے رہی ہے۔
خیال رہے کہ منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد ملک کی ایک عدالت نے 'اخوان المسلمون' پر پابندی عائد کرتے ہوئے حکومت کو تنظیم کے تمام اثاثے اور ادارے اپنی تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا۔
حکام نے 'اخوان المسلمون' کے مرشدِ عام کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے 70 سالہ محمد بدیع کو رواں سال جولائی میں صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد حراست میں لیا تھا جس کے بعد پیر کو انہیں پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا۔
محمد بدیع کے ہمراہ اخوان کی سیاسی جماعت 'فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی' کے کئی اعلیٰ رہنماؤں کو بھی قاہرہ کی پولیس اکیڈمی میں قائم کی جانے والی اس خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں گزشتہ ماہ معزول صدر محمد مرسی کے خلاف مقدمے کی سماعت ہوئی تھی۔
پیر کو اخوان کے مرشدِ عام کے ہمراہ عدالت میں پیش ہونے والوں میں سیاسی جماعت کے نائب چیئرمین اعصام العریان، محمد البلتاجی اور مرسی حکومت کے وزیر بسام عودہ بھی شامل تھے۔
دورانِ سماعت 'اخوان المسلمون' کے مرشدِ عام نے اپنی جماعت پر تشدد میں ملوث ہونے کے الزامات مسترد کیے جب کہ اخوان کے رہنما مقدمے کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں وقفے وقفے سے فوجی جنرلوں کے خلاف سخت نعر ےبازی کرتے رہے۔
ملزمان کے لیے بنائے گئے پنجرے نما کٹہرے میں موجود محمد بدیع نے عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے بیٹے کے قتل اور ان کے گھر اور اخوان کے دفاتر کو نذرِ آتش کیے جانے کے واقعات کی تحقیقات کریں۔
خیال رہے کہ محمد بدیع کے 38 سالہ بیٹے 17 اگست کو قاہرہ میں ہونے والے ایک مظاہرے کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کاروائی میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اخوان کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ مرشدِ عام کے بیٹے کو ہدف بنا کر گولی ماری گئی تھی۔
فوجی جنرلوں کے حامی مظاہرین نے محمد مرسی کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد قاہرہ میں محمد بدیع کی رہائش گاہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں قائم اخوان المسلمون کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد انہیں نذرِ آتش کردیا تھا۔
'اخوان المسلمون' سے تعلق رکھنے والے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف تین جولائی کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے مصر کی سب سے منظم اسلام پسند جماعت کے خلاف فوج اور پولیس کا سخت کریک ڈاؤن تاحال جاری ہے جس میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم سکیورٹی کریک ڈاؤن میں اخوان کے تمام اعلیٰ رہنماؤں اور سیکڑوں سرگرم کارکنوں کی گرفتاریوں کے باوجود معزول صدر کے حامی ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔
پیر کو بھی قاہرہ میں قائم مصر کے مایۂ ناز اور تاریخی تعلیمی ادارے 'جامعہ الازہر' کے ہزاروں طلبہ نے فوجی بغاوت کے خلاف جلوس نکالا جس کے شرکا اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور 58 طلبہ کو حراست میں لے لیا۔ ایک پولیس افسر کے مطابق مظاہرے میں شریک طلبہ نے پولیس کی تین گاڑیوں کو آگ لگادی۔
دریں اثنا مصر کے ایک اخبار نے رپورٹ دی ہے کہ ملک کی عبوری حکومت 'اخوان المسلمون' کے رہنماؤں اور ارکان کے 62 نجی اسکولوں کو اپنی تحویل میں لے رہی ہے۔
خیال رہے کہ منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد ملک کی ایک عدالت نے 'اخوان المسلمون' پر پابندی عائد کرتے ہوئے حکومت کو تنظیم کے تمام اثاثے اور ادارے اپنی تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا۔