ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف کی ایک ایسی گفتگو کی ریکارڈنگ افشا ہو گئی ہے جس میں انہوں نے کچھ انتہائی اہم اور حساس معاملات پر بےحد کھل کر بات کی ہے۔
اس گفتگو میں جواد ظریف نے ایران میں سفارت کاری اور اختیارات کی حدود کا تنقیدی انداز میں جائزہ لیا ہے۔ یہ گفتگو اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کی اندرونی صورتِ حال پر نظر ڈالنے کا ایک نادر موقع فراہم کرتی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ایران میں ایسی سیاسی فضا قائم ہے جس میں عہدیدار بہت سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں۔ کیوں کہ ایران کے سخت گیر سیاسی ماحول میں بے پناہ اختیارات کی مالک پاسدارانِ انقلاب بھی گہرا اثر ونفوذ رکھتی ہے جس کی براہ راست نگرانی ملک کے سپریم لیڈر کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ظریف کو اس سال جون میں ہونے والے انتخابات میں ایک ممکنہ صدارتی امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس گفتگو کے چند حصّے لندن میں قائم فارسی زبان کے ایران انٹرنیشنل سیٹلائٹ نیوز چینل پر نشر کیے گئے تھے۔ ایران انٹرنیشنل نے تین گھنٹوں پر مشتمل اس گفتگو کی ریکارڈنگ پیر کو متحدہ عرب امارات میں تعینات اے پی کے نمائندے کو فراہم کی۔
انٹرویو میں جواد ظریف نے بتایا کہ روس جوہری معاہدے کو روکنا چاہتا تھا۔ اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما سے، روس کےتعلقات کشیدہ تھے۔ اوباما انتظامیہ نے صدر حسن روحانی کے ساتھ معاہدہ طے کیا تھا۔ یہ بات اتنی حساس تھی کہ، جواد ظریف نے انٹرویو لینے والے سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی طور پر افشاء نہیں کرسکتے۔ شام کی جنگ میں اتحادی ہونے کے باوجود، ایران اور روس کے تعلقات بعض اوقات کشیدہ رہے ہیں۔
انٹرویو میں جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اگر ایران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہم ترین ترجیح نہ بنتا تو چین اور روس ان کی ترجیح اول بن جاتے۔ مغرب سے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے، ایران کو ہمیشہ روس اور چین کی ضرورت رہی ہے، اور انہیں اس سلسلے میں کسی سے مقابلے کی ضرورت نہیں ہے، اور یہ کہ انہیں ہمیشہ ایران کے ذریعے بہت سے فوائد مل سکتے ہیں۔
تاہم اے پی کے مطابق، چین اور روس دونوں نے ہی، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو دوبارہ فعال کرنے کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ویانا میں چین اور روس کے سفارتی مشنز سے اس پر رد عمل جاننے کیلئے رابطہ کیا گیا، لیکن فوری طور پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
جواد ظریف کے انٹرویو کی ریکارڈنگ میں، انہوں نے پاسدارانِ انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی پر روس کے ساتھ علیحدہ سے تعلقات رکھنے پر بھی تنقید کی ہے۔ جنرل سلیمانی سن دوہزار بیس میں بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ انہیں میدان جنگ کیلئے سفارتکاری کی قربانی دینی پڑی ہے ، لیکن وہ جو میدان جنگ میں تھے اور جن کی قیادت سلیمانی کر رہے تھے ، انہوں نے سفارتکاری کیلئے ویسی قربانی نہیں دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران جوہری معاہدے سےبہت کچھ حاصل کر سکتا تھا، لیکن اسے لڑائی کے میدان میں آگے بڑھنے کیلئے بہت کچھ چھوڑنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے اعتراضات کے باوجود، جنرل سلیمانی قومی ایئر لائن ایران ایئر کو شام میں جنگی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے سے باز نہیں آئے۔
اس گفتگو کے منظر عام پر آنے کے بعد، ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، سعید خطیب زادے نے اس انٹرویو کے مستند ہونے سے انکار نہیں کیا۔ انہوں نے پیر کے روز صحافیوں کو بتایا کہ یہ گفتگو بنیادی طور پر سات گھنٹوں پر مشتمل تھی اور اس کا صرف ایک حصہ منظر عام پر آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گفتگو ایرانی صدارتی دفتر سے منسلک ایک تھنک ٹینک کے ماہر معاشیات سے ہوئی تھی، جسے آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ کرنا مقصود تھا۔
خطیب زادے نے اس گفتگو کی ریکارڈنگ منظر عام پر لانے کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے حصّوں کو کاٹ چھانٹ کر پیش کیا گیا۔ تاہم انہوں نے یا کسی دوسرے عہدیدار نے یہ نہیں بتایا کہ یہ گفتگو منظرِ عام پر کیسے آئی۔
جواد ظریف نے، جو عراق کے دورے پر ہیں، بغداد میں مختصربیان کے بعد، صحافیوں سے بات کرنے سے گریز کیا۔
ٹرمپ انتظامیہ کی ایران پر دباؤ کی مہم کو آگے بڑھانے والے، سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی ایک ٹویٹ میں جنرل قاسم سلیمانی پر کئے گئے حملے کو ایک "کاری ضرب" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے کے ایران اور مشرقِ وسطیٰ پر وسیع تر اثرات مرتب ہوئے۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق، جواد ظریف کے انٹرویو کے ویانا میں ایران کے جوہری معاہدے پر جاری مذاکرات پر اثرات ہو سکتے ہیں۔