|
لبنان کے ایک ماہر امراض چشم الیاس جرادہ مریضوں کے اس ریلے کے علاج کے کوشش میں تقریباً ایک ہفتے سے دن رات کام کررہے ہیں جن کی آنکھیں اس وقت زخمی ہوئیں جب ملک بھر میں پیجر اور واکی ٹاکیز بڑے پیمانے پر پھٹ گئے ۔
انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے متعدد اسپتالوں میں آنکھوں کے کتنے آپریشن کیے ہیں۔ہر آپریشن شروع کرنےسے پہلے وہ صرف دو گھنٹے سوتے تھے وہ کچھ مریضوں کی بینائی بچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ، لیکن بہت سے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔
انہوں نے گزشتہ ہفتے بیروت کے ایک اسپتال میں اپنے آنسووں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا۔" بلا شبہ جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوسناک تھا، جب آپ یہ دیکھیں کہ آنکھوں کے زخموں کے ساتھ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد بیک وقت اسپتال پہنچ رہی ہے اور جن میں سے زیادہ تر نوجوان مرد ، بلکہ بچے اور نوجوان خواتین بھی ہوں۔"
لبنان کے اسپتال اور طبی عملہ گزشتہ ہفتے منگل اور بدھ کو اس کے بعد مریضوں میں گھر گیا جب عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے زیراستعمال ہزاروں پیچرز اور واکی ٹاکیز بیک وقت دھماکےسے پھٹ گئے ۔ نتیجتاً کم از کم 39 افراد ہلاک اور تقریباً 3,000 زخمی ہوئے جن میں سے کچھ زندگی بدل دینے والی عمر بھر کی معذوریوں کا شکار ہو گئے۔ ا
اس حملے کے بارے میں بڑے پیمانے پر سمجھا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا، اگرچہ اس نے اپنے ملوث ہونے کی نہ تو تصدیق اور نہ ہی تردید کی ہے۔
اگرچہ دھماکوں میں بظاہر حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا، تاہم اس کا نشانہ بننے والے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اور حملے میں زخمی ہونے والوں میں سے بہت سے لوگوں کے ہاتھ ، چہرے اور انکھیں زخمی ہوئیں کیونکہ ڈیوائسز کو پھٹنے سے بالکل پہلے پیغامات موصول ہوئے تھے، اس لیے جب وہ پھٹے تو وہ ان ڈیوائسز ہی کو دیکھ رہے تھے۔
حکام نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے لوگوں کی آنکھیں ضائع ہوئیں۔
لبنان کے تجربہ کار اور مضبوط دل آنکھوں کے ڈاکٹروں نے، جو متعدد جنگوں، شہری بدامنی اور دھماکوں کے اثرات سے نمٹ چکے ہیں، بتایا کہ انہوں نے اس سے قبل ایسا کچھ کبھی نہیں دیکھا تھا۔
جرادہ نے، جو ایک اصلاح پسند کے طور پر جنوبی لبنان کی نمائندگی کرنے والے قانون ساز بھی ہیں، کہا کہ ان کے اسپتال میں ،جو امراض چشم میں مہارت رکھنے والا اسپتال ہے، بھیجے گئے زیادہ تر مریض، ایسے نوجوان تھے جن کی ایک یا دونوں آنکھوں کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ا ن میں سے کچھ کی آنکھوں میں پلاسٹک اور دھات کے ٹکڑے پائے۔
چار سال قبل بیروت کی بندرگاہ پر ایک زوردار دھماکہ ہوا تھا جس میں 200 سےزیادہ لوگ ہلاک اور 6000 سےزیادہ زخمی ہوئے تھے۔
اس دھماکے سے جو بندر گاہ کے ایک گودام میں ذخیرہ کیے گئے سینکڑوں ٹن امونیم نائٹریٹ کے پھٹنے سے ہوا تھا میلوں تک کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ گئے تھے اور شیشے کے ٹکڑے سڑکوں پر جابجا بکھر گئے تھے ، اور خوفناک زخموں کا باعث بنے تھے ۔
جرادہ نے بندرگاہ کے دھماکے میں زخمی ہونے والے لوگوں کا بھی علاج کیا تھا، لیکن پیجرز اور واکی ٹاکیز پھٹنےسے زخمی ہونے والوں کے ساتھ ان کا تجربہ بہت زیادہ شدید رہا ہے کیونکہ ان میں آنکھوں کے زخم کا نشانہ بننے والے زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔
جرادہ نے کہا، ’’میرے خیال میں بیروت بندرگاہ کے دھماکے کے بعد کا شاک 48 گھنٹے کا تھا اور ہم اب تک اس صدمے پر قابو نہیں پا سکے ہیں۔
جرادہ نے کہا کہ انہیں آپریشن تھیٹر میں، ایک ڈاکٹر کے طور اپنے کام کو اپنے جذبات سے الگ رکھنے میں مشکل پیش آئی۔
انہوں نے کہا "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انہوں نے آپ کو (میڈیکل اسکول میں) اپنے جذبات کو الگ رکھنے کے بارے میں کیا سکھایا ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کی صورتحال میں، جب آپ زخمیوں کی ایک بڑی تعداد کو دیکھتے ہیں تو ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کا تعلق لبنان کے خلاف جنگ اور انسانیت کے خلاف جنگ سے ہے۔‘‘
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے ۔
فورم