لیبیا کا دارالحکومت طرابلس میں بظاہر نیٹو کے فضائی حملوں کے نتیجے دھماکوں سےلرزاٹھا۔ جب کہ ملک کے مغربی علاقے میں واقع تیل کی ایک بندرگاہ میں صدر معمر قذافی کی وفادار فورسز اور باغیوں کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔
مغربی میڈیا کا کہناہے کہ دارالحکومت طرابلس دن کے زیادہ تر خاموشی طاری کے بعد ہفتے کی رات دھماکوں سے گونج اٹھا۔
عینی شاہدین کا کہناہے کہ زوایہ میں قذافی کی وفادار فورسز اور باغیوں کے درمیان دوبارہ جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں۔ تیل کی یہ بندرگاہ دارالحکومت سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
طرابلس اور تنونس کے درمیان سپلائی کی فراہمی کے لیے استعمال کی جانے والی ایک بڑی شاہرہ امن وامان کی موجودہ صورت حال کے باعث بند ہوگئی ہے۔
اس کے علاوہ صد رقدافی کی حامی فورسز مغربی قصبے زلیتن اور باغیوں کے زیر قبضہ شہر مصراتہ میں بھی اہداف کو نشانہ بنارہی ہیں۔ مصراتہ میں طبی عہدے داروں کا کہناہے کہ جمعے کے روز وہاں کم ازکم 30 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
باغیوں نے مارچ کے مہینے میں کچھ عرصے کے لیے زاویہ پر قبضہ کیاتھا مگر بعد ازاں قذافی کی فورسز نے انہیں علاقے سے پیچھے دھکیل دیا۔
جمعے کے روز بھی دارلحکومت طرابلس میں نیٹو طیاروں کے حملوں کے بعد وہاں سے دھوئیں کے گہرے بادل بلند ہوتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ نیٹو کے فضائی حملے صدر معمرقدافی کو اقتدار سے علیحدگی پر مجبور کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں ۔
تاہم ابھی تک ایسی کوئی اطلاعات نہیں ہیں کہ مسٹر قدافی اقتدار چھوڑنے پر غور کررہے ہیں، لیکن ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے کہاہے کہ انہوں نے صدر قدافی کو اپنا ملک چھوڑنے کی صورت میں ضمانتیں دینے کی پیش کش کی ہے۔
ترک وزیر اعظم نے ضمانیوں کی نوعیت کےبارے میں کچھ نہیں بتایا۔ لیکن ان کا کہناہے کہ مسٹر قذافی جہاں رہنا چاہیں گے، ترکی ان کی مدد کرے گا۔ مسٹر اردگان کا کہناہے کہ وہ ابھی تک طرابلس کی جانب سے جواب کا انتظار کررہے ہیں۔