اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سنیچر کی شب لیبیا پر پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔ اس قرارداد کے تحت لیبیا کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کے علاوہ صدر معمّر قذّافی اور ان کے خاندان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ صدر قذّافی اور ان کی حکومت میں شامل لوگوں کےسفر کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل کی طرف سے پہلی مرتبہ متفقہ طور پر لیبیا کی صورتحال پر عالمی عدالت سے رجوع کیا گیا ہے۔ دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت کے تحت یہ تفتیش کرائی جائے گی کہ آیا لیبیا میں حکومت کی طرف سے جنگی جرائم تو نہیں کیے جا رہے۔
اس قرارداد میں لیبیا کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ تشدد کا فوری طور پر خاتمہ کرے، اپنی عوام کے انسانی حقوق کی پاسداری کرے، بین الاقوامی ہنگامی امدادی ایجنسیوں کو محفوظ طریقے سے ملک میں داخلے کی اجازت دے، ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کو ختم کرے، اور دیگر ممالک کے لیبیا میں موجود باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
اس موقع پر اقوام متحدہ میں لیبیا کے سفیر عبدالرحمان شلغم نے سلامتی کونسل کا شکریہ ادا کیا۔ مسٹر شلغم لیبیا کے ان اعلٰی اہلکاروں میں شامل ہیں جنہوں نے عوام پر تشدد کی خبروں کے بعد صدر قذّافی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
پندرہ رکنی کونسل کے ارکان لیبیا میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے چھٹی کے دن بھی اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں جمع تھے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت عالمی امن و سلامتی کی خاطر سلامتی کونسل کو فوجی و غیر فوجی اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔
سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی ایک روز قبل سلامتی کونسل پر زور ڈالا تھا کہ وہ صدر قذّافی اور ان کی حکومت کے خلاف فوری اور سخت اقدامات کرے تاکہ لیبیا میں جاری تشدد کا سدّباب ممکن ہو۔
سنیچر کی صبح سیکرٹری جنرل نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز السّعود اور اٹلی کے وزیر اعظم سلویو برلسکونی سے فون پر لیبیا کی صورتحال پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ پیر کو مسٹر بان واشنگٹن میں امریکی صدر براک اوباما سے اسی موضوع پر بات چیت کریں گے۔
ایک روز قبل اقوام متحدہ کی کونسل برائے حقوقِ انسانی نے بھی لیبیا میں جاری تشدد کی شدید مذمّت کی تھی اور اس سلسلے میں نہ صرف عالمی سطح پر انکوائری کرانے کا حکم دیا تھا بلکہ خود کونسل سے لیبیا کی رکنیت معطّل کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
کونسل برائے حقوقِ انسانی کے ارکان کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر جنرل اسمبلی ہی دو تہائی ارکان کی اکثریت سے کسی ملک کی رکنیت معطّل بھی کر سکتی ہے۔