واشنگٹن —
گزشتہ گرمیوں سے سفارتکار لیبیا کے نئے حکمرانوں پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کے طریقۂ کار کے بارے میں جلد کوئی فیصلہ کر لیں۔
لیکن جولائی میں ملک میں انتخاب ہونے کے چھ مہینے بعد بھی جو نصف صدی میں پہلی بار منعقد ہوئے تھے، آج تک کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔
لیبیا کے لوگ ملک میں تبدیلی کی سست رفتار پر سخت مایوس ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئین سازی میں تاخیر سے مرکزی حکومت کو لاکھوں مسلح افراد کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے میں کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔
لیبیا کا نیا آئین کس طرح تحریر کیا جائے، یہ طے کرنے میں ایک سب سے بڑی دشواری یہ اختلاف ہے کہ آئین کا مسودہ تیار کرنے والے پینل کے 60 افراد کا چناؤ انتخاب کے ذریعے کیا جائے، یا ملک کی نئی پارلیمینٹ، جنرل نیشنل کانگریس ، ان کا تقرر کرے۔
ایک اور چیز جس پر سیاست داں متفق نہیں ہو سکے ہیں وہ یہ ہے کہ اس عمل کو کس طرح ایسی شکل دی جائے کہ سب کو، یعنی لیبیا کے تین خطوں کو اور عورتوں کو آئین سازی میں شرکت کرنے کا موقع مل سکے۔
یورپی پارلیمینٹ کے جرمن رکن ایلگزینٹدر گراف لیبیا جانے والے مبصروں کی ایک ٹیم کے سربراہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب اہم بات یہ ہے کہ یہ کام تیزی سے کیا جائے۔
‘‘آئینی کمیٹی کے ارکان کا چناؤ کے طریقۂ کار کے بارے میں فیصلہ فوری طور پر کیا جانا چاہیئے۔ عبوری دور کے لیبیا کی مسلسل کامیابی کا انحصار اس کمیٹی کے کام پر ہے۔’’
عورتوں کو یہ فکر ہے کہ آئین کے مسودے کی تیاری میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے کہ یہ مسودہ ملکی قانون بنے اس پر ریفرینڈم کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔
یورپی پارلیمینٹ کے جرمن ایلگزینڈر کہتے ہیں کہ ’’اسی لیے ہمارے خیال میں اس کام میں سب کو شریک ہونا چاہیئے۔ اس کا مطلب یہ ہے عورتیں کمیٹی میں شامل ہوں ۔ ہمارے خیال میں ایسا آئین تیار کرنے کا جسے معاشرے کے تمام حلقوں کی وسیع حمایت حاصل ہو، یہی بہترین طریقہ ہے۔‘‘
سفارتکار اور بین الاقوامی قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اس عمل میں سب کو شریک ہونا ہے تو پھر اس کے لیے کافی وقت دیا جانا چاہیئے تا کہ سب لوگ اپنے خیالات سے پینل کو آگاہ کر سکیں۔ اور صرف اسی کام میں تین مہینے تک لگ سکتے ہیں۔
اس بارے میں ایلگزینڈر کا کہنا ہے کہ’’اس کا زیادہ عملی طریقہ یہ ہو گا کہ وسیع پیمانے پر عوام سے صلاح و مشورے کے انتظام کیا جائے اس سے پہلے کہ کمیٹی سرکاری طور پر اپنا کام شروع کرے ۔ عوام سے صلاح و مشورے کے اس عمل میں آسانی سے تین مہینے لگ سکتے ہیں۔ اس طرح علاقائی مفادات کا اظہار ہو جائے گا، سول سوسائٹ کے مفادات کو آواز مل جائے گی اور عورتیں اپنے مفادات کی وضاحت کر سکیں گی۔‘‘
سرگرم خواتین نے انتباہ کیا ہے کہ لیبیا کی حکومت کو ہمسایہ ملک مصر کے صدر محمد مرسی کی تقلید نہیں کرنی چاہیئے، جہاں عجلت میں کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں یہ الزامات لگائے گئے کہ اس عمل میں سب کو شامل نہیں کیا گیا اور پھر پُر تشدد احتجاج ہوئے۔
طرابلس کی سابق اسکول پرنسپل اور سرگرم سیاسی کارکن لطفیہ الطبیب کہتی ہیں کہ لیبیا کے کچھ مردوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عورتوں کے حق میں کیا بہتر ہے ۔ وہ اس خیال سے متفق نہیں کہ کمیٹی میں عورتوں کا ہونا ضروری نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’اس کمیٹی میں کم از کم پینتیس فیصد عورتیں ہونی چاہئیں۔‘‘
پارلیمینٹ کی خواتین ارکان نے اب مختلف پارٹیوں کی عورتوں کا ایک بلاک تشکیل دیا ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ آئینی مسودے کی کمیٹی میں عورتوں کو مناسب نمائندگی ملے۔ لیکن انہیں کس حد تک اس عمل میں شریک کیا جائے گا اس سوال پر زور شور سے بحث جاری ہے۔
لیکن جولائی میں ملک میں انتخاب ہونے کے چھ مہینے بعد بھی جو نصف صدی میں پہلی بار منعقد ہوئے تھے، آج تک کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔
لیبیا کے لوگ ملک میں تبدیلی کی سست رفتار پر سخت مایوس ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئین سازی میں تاخیر سے مرکزی حکومت کو لاکھوں مسلح افراد کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے میں کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔
لیبیا کا نیا آئین کس طرح تحریر کیا جائے، یہ طے کرنے میں ایک سب سے بڑی دشواری یہ اختلاف ہے کہ آئین کا مسودہ تیار کرنے والے پینل کے 60 افراد کا چناؤ انتخاب کے ذریعے کیا جائے، یا ملک کی نئی پارلیمینٹ، جنرل نیشنل کانگریس ، ان کا تقرر کرے۔
ایک اور چیز جس پر سیاست داں متفق نہیں ہو سکے ہیں وہ یہ ہے کہ اس عمل کو کس طرح ایسی شکل دی جائے کہ سب کو، یعنی لیبیا کے تین خطوں کو اور عورتوں کو آئین سازی میں شرکت کرنے کا موقع مل سکے۔
یورپی پارلیمینٹ کے جرمن رکن ایلگزینٹدر گراف لیبیا جانے والے مبصروں کی ایک ٹیم کے سربراہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب اہم بات یہ ہے کہ یہ کام تیزی سے کیا جائے۔
‘‘آئینی کمیٹی کے ارکان کا چناؤ کے طریقۂ کار کے بارے میں فیصلہ فوری طور پر کیا جانا چاہیئے۔ عبوری دور کے لیبیا کی مسلسل کامیابی کا انحصار اس کمیٹی کے کام پر ہے۔’’
عورتوں کو یہ فکر ہے کہ آئین کے مسودے کی تیاری میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے کہ یہ مسودہ ملکی قانون بنے اس پر ریفرینڈم کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔
یورپی پارلیمینٹ کے جرمن ایلگزینڈر کہتے ہیں کہ ’’اسی لیے ہمارے خیال میں اس کام میں سب کو شریک ہونا چاہیئے۔ اس کا مطلب یہ ہے عورتیں کمیٹی میں شامل ہوں ۔ ہمارے خیال میں ایسا آئین تیار کرنے کا جسے معاشرے کے تمام حلقوں کی وسیع حمایت حاصل ہو، یہی بہترین طریقہ ہے۔‘‘
سفارتکار اور بین الاقوامی قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اس عمل میں سب کو شریک ہونا ہے تو پھر اس کے لیے کافی وقت دیا جانا چاہیئے تا کہ سب لوگ اپنے خیالات سے پینل کو آگاہ کر سکیں۔ اور صرف اسی کام میں تین مہینے تک لگ سکتے ہیں۔
اس بارے میں ایلگزینڈر کا کہنا ہے کہ’’اس کا زیادہ عملی طریقہ یہ ہو گا کہ وسیع پیمانے پر عوام سے صلاح و مشورے کے انتظام کیا جائے اس سے پہلے کہ کمیٹی سرکاری طور پر اپنا کام شروع کرے ۔ عوام سے صلاح و مشورے کے اس عمل میں آسانی سے تین مہینے لگ سکتے ہیں۔ اس طرح علاقائی مفادات کا اظہار ہو جائے گا، سول سوسائٹ کے مفادات کو آواز مل جائے گی اور عورتیں اپنے مفادات کی وضاحت کر سکیں گی۔‘‘
سرگرم خواتین نے انتباہ کیا ہے کہ لیبیا کی حکومت کو ہمسایہ ملک مصر کے صدر محمد مرسی کی تقلید نہیں کرنی چاہیئے، جہاں عجلت میں کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں یہ الزامات لگائے گئے کہ اس عمل میں سب کو شامل نہیں کیا گیا اور پھر پُر تشدد احتجاج ہوئے۔
طرابلس کی سابق اسکول پرنسپل اور سرگرم سیاسی کارکن لطفیہ الطبیب کہتی ہیں کہ لیبیا کے کچھ مردوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عورتوں کے حق میں کیا بہتر ہے ۔ وہ اس خیال سے متفق نہیں کہ کمیٹی میں عورتوں کا ہونا ضروری نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’اس کمیٹی میں کم از کم پینتیس فیصد عورتیں ہونی چاہئیں۔‘‘
پارلیمینٹ کی خواتین ارکان نے اب مختلف پارٹیوں کی عورتوں کا ایک بلاک تشکیل دیا ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ آئینی مسودے کی کمیٹی میں عورتوں کو مناسب نمائندگی ملے۔ لیکن انہیں کس حد تک اس عمل میں شریک کیا جائے گا اس سوال پر زور شور سے بحث جاری ہے۔