لیبیا میں ایک بار پھر لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ طرابلس کا بڑا سویلین اور فوجی ہوائی اڈہ، مشرقی علاقے کے کمانڈر جنرل خلیفہ ہفتار کی وفادار فوجوں کے حملے کا ہدف ہے۔ اور ہفتے کے روز ہونے والے حملے میں ہوائی اڈے کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار ایڈورڈ یرامین کے مطابق حالیہ دنوں میں ہفتار کی وفادار فوجوں اور طرابلس میں قائم فیاض علی سراج کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی افواج نے ایک دوسرے کے فوجی اڈوں پر حملے کئے ہیں اور دونوں فریق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے کرونا وائرس کے سبب جنگ بندی کی اپیلوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
ممتاز تجزیہ کار اور فلوریڈا یونیورسٹی کے پروفیسر عظمت رسول کا، جو آج کل ابوظہبی میں ایک منصوبے ہر کام کر رہے ہیں، کہنا ہے کہ لیبیا اپنی تیل کی دولت اور جغرافیائی لوکیشن کے سبب بڑی طاقتوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے اور یہ طاقتیں وہاں اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی جب کبھی کسی ملک میں مطلق العنان حکومتیں ختم ہوتی ہیں تو یہ ہی صورت حال بنتی ہے اور مسائل کے حل ہونے میں بڑا وقت لگ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک جانب ترکی ہے جو طرابلس کی حکومت کی حمایت کر رہا ہے, بلکہ وہ اقوام متحدہ کے تحت اپنے فوجی بھی وہاں بھیجنے کو تیار ہے۔
اس کے ساتھ قطر بھی سراج حکومت کی حمایت کر رہا ہے، جب کہ روس اور متحدہ عرب امارات جنرل ہفتار کی حمایت میں پیش پیش ہیں اور سعودی عرب، مصر اور فرانس بھی طرابلس حکومت کے مخالف ہیں اور یوں لیبیا دوسرے ملکوں کے مفادات کی کشمکش کی ایک آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔
اس وقت تک اصلاح احوال ممکن دکھائی نہیں دیتی جب تک وہاں یہ پراکسی وار ختم نہیں ہوتی اور اس کے لئے اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جو اس وقت نظر نہیں آ رہا ہے۔ طرابلس میں امریکی سفارت خانے نے بھی فریقین سے کہا ہے کہ جنگ بند کر کے مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔
خیال رہے کہ جنرل ہفتار کا ملک کے بیشتر حصے اور وسائل پر کنٹرول ہے لیکن بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ یا ان کے حریف اپنے اپنےحمایتی ملکوں کی مدد کے ساتھ بھی یہ جنگ فوجی طور پر جیت سکیں۔