گذشتہ 20 برسوں میں کئی ملکوں کے اتحاد بنے ہیں جنھو ں نے 1990 کی دہائی کے وسط میں دو برس کے لیئے بوسنیا میں، شمالی اور جنوبی عراق میں 1991 سے 2003 تک نو فلائی زون عائد کیئے ہیں۔ نو فلائی زون سے مراد ہے ایسا علاقہ جس پر بعض قسم کے ہوائی جہاز، خاص طور سے فوجی جہاز اڑانے کی ممانعت ہوتی ہے ۔اب ایک اور نو فلائی زون عائد کرنے کی بات ہو رہی ہے جو لیبیا پر ہوگا۔ بہت سے یورپی ممالک، امریکی فوجی ماہرین اور عرب لیگ، اس قسم کے اقدام پر غور کر رہے ہیں۔ لیکن روس اور چین جیسے بعض دوسرے ممالک اس اقدام کے حق میں نہیں ہیں۔
امریکی بحریہ کے ریٹائرڈ کیپٹین ٹام پارکر جو بوسنیا کے نو فلائی زون پر جہاز اڑا چکے ہیں، کہتے ہیں کہ لیبیا پر نو فلائی زون قائم کرنے سے پہلے بعض بنیادی سوالوں پر توجہ دی جانی چاہیئے۔’’سب سے پہلے تو اس سوال کا جواب دیا جانا چاہیئے کہ نو فلائی زون کا مقصد کیا ہے۔ کیا ہم لوگوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، یا قذافی کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم باغیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں یا شاید ان میں سے کئی مقاصد ملا جلا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ایئر فور س کے ریٹائرڈ جنرل ڈیوڈ ڈیپٹیولا جنھوں نے عراق پر نو فلائی زون پر عمل در آمد کے لیئے 80 سے زیادہ پروازیں کی ہیں اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ نو فلائی زون کو ایک حل کے طور پر پیش کر رہے ہیں لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ مسئلہ کیا ہے اور وہ نو فلائی زون سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے سوالات یہ ہیں کہ اس کے ضابطے کیاں ہوں گے۔ کیا نو فلائی زون کا اطلاق پورے لیبیا پر ہوگا یا صرف ان علاقوں پر جن پر قذافی کے حامیوں کا قبضہ ہے۔ نو فلائی زون میں کون شامل ہوگا اور یہ کتنے عرصے کے لیئے ہوگا۔
کیپٹین پارکر کہتے ہیں کہ اصل کام یہ معاملات طے ہونے کے بعد شروع ہو گا ۔’’اصل کام اس مرحلے پر شروع ہوتا ہے کیوں کہ آپ کو کئی قسم کے ہوائی جہازوں کی ضرورت ہوتی ہے، آپ کو لڑاکا جہاز چاہیئے، ٹینکنگ جہاز چاہیئے، جاسوسی کرنے والا جہاز چاہیئے ، اور آپ کے پاس ایک منصوبہ ہونا چاہیئے۔ آپ کے پاس تمام جہازوں سے بیک وقت رابطہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیئے، اور ان سب کی سرگرمیوں کے درمیان ربط ہونا چاہیئے۔ تو نو فلائی زون قائم تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بڑا مہنگا پیچیدہ اور شاید خطرناک کام ہے کیوں کہ کم از کم کاغذ پر لیبیا کے پاس زمین سے فضا میں مار کرنے والے کم از کم 200 سوویت SA-6 مزائل موجود ہیں۔‘‘
تاہم لندن کے جینز ڈیفنس ویکلی کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کا دیا ہوا بیشتر سامان پرانا ہو چکا ہے ۔ لیکن اگر ایک بھی زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل خاصے لمبے فاصلے تک جا سکتا ہےاور ٹھیک حالت میں ہے، تو وہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
جنرل ڈیپٹیولا اور کیپٹن پارکر دونوں کا کہنا ہے کہ نو فلائی زون سمیت ، لیبیا کے خلاف جوبھی فوجی کارروائی ہو، اسے بین الاقوامی برادری کی منظوری حاصل ہونی چاہیئے۔ سب سے اچھا تو یہ ہے کہ نو فلائی زون کی حمایت میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد منظور کی جائے ۔ لیکن کونسل کے دو مستقل ارکان، روس اور چین، کہتے ہیں کہ وہ اس اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔ پارکر کہتے ہیں کہ وہ ان ملکوں کی سوچ کو سمجھتے ہیں۔’’بعض ملکوں کو اس معاملے میں الجھنے میں اس لیئے تامل ہے کہ وہ سوچتے ہیں کہ اس کا خاتمہ کہاں ہوگا؟ آپ کب فتح کا اعلان کریں گے؟ نو فلائی زون سے آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے حصول کا پیمانہ کیا ہوگا اور آپ اپنی کامیابی کو کس طرح جانچیں گے۔‘‘
پارکر کہتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ شمالی اور جنوبی عراق کے فلائی زونز کی طرح ، یہ سلسلہ بھی برسوں چلتا رہے۔ جنرل ڈیپٹیولا پوچھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری لیبیا پر نو فلائی زون قائم کرنے میں کس کے لیئے کام کر رہی ہوگی؟۔’’جو لوگ یہ مد د چاہتے ہیں ان کے پاس کیا اختیار ہے؟ جو لوگ قذافی کی مزاحمت کر رہے ہیں ان کا لیڈر کون ہے ؟ اور ہمیں اس بات کا یقین کیسے آئے کہ جب یہ لوگ بر سر اقتدار آ جائیں گے تو یہ قذافی جتنے ہی یا اس سے بھی برے ثابت نہیں ہوں گے ؟‘‘
ڈیپٹیولا کہتے ہیں کہ اگر اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کسی نو فلائی زون کی قرارداد کی حمایت نہیں کرتی، تو بعض دوسرے گروپ اس قسم کے اقدام کو قانونی حیثیت دے سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نیٹو یا افریقی یونین لیبیا پر نو فلائی زون کی درخواست کر سکتے ہیں، اور یہ اقدام اسے قائم کرنے کے لیئے کافی ہوگا۔