اقوامِ متحدہ کی لیبیا میں تسلیم شدہ حکومت (جی این اے) نے مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کی جانب سے لیبیا میں فوجی مداخلت کی تنبیہ کی مذمت کی ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کو 'اعلانِ جنگ' قرار دیا ہے۔
لیبیا کی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لیبیا میں براہِ راست مداخلت دشمنی پر مبنی اقدام ہو گا۔ اگر مصر نے ایسا کچھ کیا تو اُسے اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔
لیبیا کے ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت کا کہنا تھا کہ ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت لیبیا کی خود مختاری پر حملہ ہو گا۔
واضح رہے کہ دو روز قبل مصر کے صدر جنرل (ر) عبد الفتح السیسی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر جی این اے کی حامی فورسز نے اہمیت کے حامل شہر سِرت کی جانب پیش قدمی کی تو مصر لیبیا میں براہِ راست فوجی مداخلت کرے گا۔
لیبیا کی حکومت کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عبدالفتح السیسی کی جانب سے ملک میں براہِ راست مداخلت یا باغی رہنما، مسلح ملیشیا یا کرائے کے فوجیوں کی حمایت کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق لیبیا کی صدارتی کونسل کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ خلیفہ حفتر کی حمایت کرنے والے ممالک ان کی شکست کے بعد اب سیاسی حل اور مذاکرات کی باتیں کر رہے ہیں۔
کونسل کا بیان میں مزید کہنا تھا کہ پورا لیبیا سرخ لکیر ہے۔ یہ لکیر بیانات سے نہیں بنائی جا سکتی بلکہ یہ شہیدوں کے لہو سے بنتی ہے۔
مصر کے صدر نے لیبیا کے شہر سرت اور الجفرہ کو مصر کے لیے سرخ لکیر قرار دیا تھا۔
قطر کے خبر رساں ادارے 'الجزیرہ' کے مطابق صدر عبد الفتح السیسی نے مصر کی فوج کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ ملک کے اندر اور بیرونِ ملک کسی بھی کارروائی کے لیے تیار رہے۔
انہوں نے یہ احکامات ایک ایسے موقع پر دیے ہیں جب ترکی کی جانب سے لیبیا کی حکومت کی بھر پور مدد کی جا رہی ہے۔
تیل کے قدرتی ذخائر سے مالا مال ملک لیبیا سابق فوجی حکمران معمر قذافی کی 2011 میں حکومت کا تختہ الٹ جانے کے بعد سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔
لیبیا میں 2015 سے اقتدار کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔ ایک جانب اقوامِ متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت 'جی این اے' ہے جب کہ دوسری جانب فوجی کمانڈر خلیفہ حفتر عبد الرحمٰن کی فورسز ہیں۔
ملک کے مشرقی حصے پر جنرل حفتر کا قبضہ ہے جب کہ دارالحکومت طرابلس سمیت ملک کے مغربی حصے پر اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت جی این اے کا کنٹرول ہے۔
کمانڈر حفتر کو مصر، متحدہ عرب امارات اور روس کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے اپریل 2019 میں دارالحکومت طرابلس پر حملہ کر کے قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
دوسری جانب جی این اے کی حکومت کا سب سے بڑا معاون ترکی ہے۔ حالیہ چند مہینوں میں ترکی نے لیبیا کی مدد میں کافی حد تک اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد حکومتی فوج نے نہ صرف کمانڈر حفتر کی فورسز کا دارالحکومت پر حملوں کا سلسلہ ختم کر دیا ہے بلکہ اب وہ ملک کے دیگر علاقوں کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔
سرکاری فورسز اب ملک کے ساحلی شہر سِرت کی جانب بڑھ رہی ہیں جو کہ اہمیت کے حامل علاقہ ہے کیوں کہ یہاں لیبیا کے تیل کے اہم ذخائر ہیں اور اس پر کمانڈر حفتر کا کنٹرول ہے۔
ترکی کے نشریاتی ادارے 'ٹی آر ٹی' کے مطابق متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے مصر کے صدر کے بیان کی حمایت کی ہے۔
'الجزیرہ' نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اردن کی وزارتِ خارجہ نے بھی قاہرہ کے اقدامات کے حق میں بیان جاری کیا ہے۔