وائٹ ہاؤس نے جمعے کے روز بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے دن لیبیا کے فوجی کمانڈر، خلیفہ حفتر سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ اور یہ کہ بات چیت کے دوران ٹرمپ نے، ’’انسداد دہشت گردی کی جاری کوششوں اور لیبیا میں امن اور استحکام کے حصول کی ضرورت پر زور دیا‘‘۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ نے ’’دہشت گردی کے خلاف کام اور لیبیا کے تیل کے وسائل کو واگزار کرانے کے حوالے سے فیلڈ مارشل حفتر کے اہم کردار کو تسلیم کیا‘‘، اور یہ کہ ’’دونوں رہنماؤں نے لیبیا میں استحکام اور جمہوری سیاسی نظام کے حصول کے سلسلے میں دونوں کے مشترکہ نصب العین پر بات کی‘‘۔
یہ بات واضح نہیں آیا وائٹ ہاؤس نے ٹیلی فون کال کے بارے میں کئی روز بعد اعلان کیوں کیا۔
جمعرات کے روز امریکہ اور روس دونوں نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت نہیں کرسکتے، جس میں اس وقت لیبیا میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جمعرات ہی کے روز طرابلس کے مضافات میں بم حملے ہوئے جس سے ایک کلینک نشانہ بننے والی تھی، جو کارروائی دو ہفتے قبل لیبیا کے دارالحکومت کے مشرق میں حفتر کی فو ج نے شروع کر رکھی ہے، جسے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت قرار دیا جاتا ہے۔
ٹرمپ جمعرات کے روز فلوریڈا کے پام بیچ کے مقام ’مار اے لاگو‘ میں اپنے کلب پہنچے، جہاں وہ اختتام ہفتہ ایسٹر منائیں گے۔
روس کو برطانیہ کی جانب سے مسودہٴ قرارداد تحریر کرنے پر اعتراض ہے جس میں حفتر پر الزام دیا گیا ہے کہ اُن کی لیبیائی نیشنل آرمی (ایل این اے) تشدد کی کارروائیوں میں اضافے کی ذمہ دار ہے۔ سفارت کاروں کے مطابق، اس ماہ کے اوائل میں اُن کی فوج نے طرابلس کے مضافات کی جانب پیش قدمی کی۔
مسودہ قرارداد کی حمایت نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ کے بارے میں امریکہ نے کچھ نہیں بتایا، جس میں دوسرے ملکوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ لڑائی میں ملوث فریقین پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں، تاکہ اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور یہ کہ بغیر شرائط کے لیبیا میں انسانی ہمدردی کی نوعیت کی امداد فراہم کی جاسکے۔ سال 2011ء جب سے معمر قذافی کا تختہ الٹا گیا ہے ملک میں انتشار پھیلا ہوا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر، جان بولٹن نے بھی حالیہ دنوں حفتر سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔