واشنگٹن ڈی سی کے ایک نرسنگ ہوم میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک بہت ہی خوبصورت روئی کے گالوں جیسے بالوں والی بڑی بی سے ملاقات ہوئی۔ وہیل چیئر میں بیٹھی تھیں۔ نرس اُنھیں دوا پلا رہی تھی۔ اور وہ بس مسکرائے جارہی تھیں۔
قریب جانے پر معلوم ہوا کہ ابھی ابھی اُن کا بیٹا اُن سے مل کر واپس گیا ہے۔
ہم نے پوچھا، ’آپ کو یہاں کیسا لگ رہا ہے؟‘
کہنے لگیں، ’انسان کو انسان کی ضرورت سب سے زیادہ بڑھاپے میں پیش آتی ہے۔‘
پوچھا، ’وہ کیسے؟‘
کہنے لگیں، ’بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اُس کا زیادہ وقت ماں کی گود میں گزرتا ہے۔ بڑا ہوجاتا ہے تو اُس کی توانائیاں کسی سہارے کی محتاج نہیں رہتیں۔ مگر بڑھاپہ وہ دور ہے جب ہر سہارے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہی وقت ہے جب اپنے بیگانے کی پہچان ہوتی ہے۔ اور یہی مرحلہ ہے جب اولاد کا امتحان شروع ہوتا ہے۔‘
بات واقعی درست معلوم ہوتی ہے۔ بڑھاپا عمر کا وہ حصہ ہے جِس میں آئندہ کسی اچھی امید کا دامن مشکل سے ہی ہاتھ آتا ہے۔ بچہ بڑے ہونے کی امید رکھتا ہے۔ جوان خدا کی دی ہوئی ہمت اور طاقت کے بل پر مشکل سے گزر جاتے ہیں۔ مگر بڑھاپا واقعی مشکل دور ہے جس میں دِن بہ دن انحطاط ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
دنیا کی آبادی پر نظر ڈالیئے تو اب آپ کو انسانوں کی عمر میں ایک خاص طوالت نظر آئے گی۔ جینے کی آرزو تو ہر انسان میں شدید ہوتی ہے۔ مگر قوا مضمحل ہوجائیں تو سہارا کون دے گا؟ یہ سوال ضرور پریشان کرتا ہے۔
امریکہ میں اِس سوال کا جواب تیزی سے تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہاں کا خاندانی نظام بچوں کو بڑھاپے سے پہلے ماں باپ سے دور کردیتا ہے۔ تعلیم کا حصول، شادی یا تلاشِ معاش؟ وجہ کچھ بھی ہو۔ ماں باپ کا گھر ایک خاص عمر میں بچوں کے لیے مہمان خانہ بن جاتا ہے۔
بچے آئے، کچھ روز قیام کیا اور پھر چلے گئے۔ چھٹی لیں تو آخر کب تک؟
تعلیم یا ملازمت ضروری نہیں کہ اپنے ہی شہر میں ملے۔ ایسےمیں ضعیف والدین کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ یا تو اولڈ ہومز میں رہیں یا باقاعدہ کسی ایسی فاؤنڈیشن کے رُکن بن جائیں جو اِسی عمر کے لوگوں کی مدد کرتی ہو۔
امریکہ میں بڑھاپے کے امراض کے ماہر ڈاکٹر نور زماں خان کہتے ہیں کہ اُن کےپاس جو مریض آتے ہیں اُنھیں دوا کے ساتھ ساتھ اپنوں کی توجہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
ماں باپ سے سب کو محبت ہوتی ہے۔ امریکیوں کو بھی بہت محبت ہے۔ اگرغمِ روزگار کا کچھ علاج ہوجائے، تو شاید، نرسنگ ہومز کی ضرورت کبھی نہ پڑے؟
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: