کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ کھانے کے لیے جیتے ہیں اور کچھ جینے کے لیے کھاتے ہیں۔ جینا کھانے کے لیے ہویا کھانا جینے کے لیے، وہ ہماری زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کےلیے جینے والے، یعنی جسمانی ضرورت سے زیادہ کھانے والے، لمبا عرصہ جی نہیں پاتے اور بسیار خوری انہیں مختلف امراض میں مبتلا کردیتی ہے۔ تاہم جو جینے کے لیے کھاتے ہیں، وہ طویل عرصےتک زندہ رہتے ہیں۔
بڑی عمر کے افراد پر کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہواہے کہ ایسے افراد جن کی عمریں 70 اور 80 سال کے درمیان تھیں، جب انہوں نے اپنی غذائی عادات تبدیل کیں اور جسمانی ضرورت کے مطابق ہاتھ روک کرکھاناشروع کیا تو نہ صرف یہ کہ صحت کو لاحق خطرات کم ہوئے بلکہ ان کی اوسط عمروں میں دس سال تک کا اضافہ بھی دیکھا گیا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مناسب مقدار میں متوازن خوراک آپ کو طویل عرصے تک جینے میں مدد دیتی ہے۔
تحقیقی مطالعے سے ماہرین کو معلوم ہوا کہ بڑی عمر کے جن افراد نے سبزیوں، پھلوں، کم چکنائی والے دودھ اور ایسے اناج کا استعمال کیا تھا، جس کا چھلکا الگ نہیں کیا گیاتھا، ان کی اوسط عمر میں ایسے افراد کی نسبت دس سال کا اضافہ ہواجنہوں نے متوازن اور صحت بخش خوراک کو اہمیت نہیں دی تھی۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے شعبہ غذائیات کی سائنس دان ایمی اینڈرسن، جنہوں نے اس تحقیق کی قیادت کی ، کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ بڑھاپے میں خوراک کی زیادہ اہمیت نہیں رہتی اور اس کا ان کی عمر کی طوالت پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔
ایمی اینڈر سن کہتی ہیں کہ ہماری تحقیق کے نتائج اس نظریے سے مختلف نکلے۔ ہم نے اپنی تحقیق میں اس سلسلے میں ہونے والے کئی دوسرے مطالعاتی جائزوں کو بھی اپنے پیش نظر رکھا۔جن سے ہمارے اس نظریے کو تقویت ملی کہ متوازن اور صحت بخش خوراک کے استعمال سے عمررسیدہ افراد زیادہ عرصے تک جی سکتے ہیں۔
اپنی تحقیق کے دوران ایمی اینڈر سن اور ان کی ٹیم نے پٹس برگ اور ممپس کے 2500 ایسے افراد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا جن کی عمریں 70 اور 79 سال کے درمیان تھیں۔ ان سے کھانے پینے کی عادات اور خوراک کے بارے میں سوالات کیے گئے اور صحت کے بارے میں بھی پوچھا گیا کہ وہ اسے کس درجے پر رکھتے ہیں، یعنی بہت اچھی، اچھی ، مناسب ، گذارہ یا خراب۔
ماہرین نے تحقیق میں شامل رضاکاروں کوان آٹھ گروپوں میں تقسیم کیا ۔
1۔ زیادہ تر صحت بخش اور متوازن خوراک استعمال کرنے والے
2۔ زیادہ چکنائی والی خوراک ،مثلاً آئس کریم، پنیر وغیرہ کھانے والے
3۔ کم چکنائی کی غذا استعمال کرنے والے ، مثلاً چاول، اور کریم نکلا دودھ وغیرہ
4۔ زیادہ تر گوشت اور بھنے ہوئے کھانے کھانے والے
5۔ بھوسی نکلا آٹا، یا میدہ استعمال کرنے والے
6۔ ناشتے میں زیادہ تر دلیہ کھانے والے
7۔ چینی کا زیادہ استعمال کرنے والے
8۔ اورایسے افراد جن کی زیادہ تر خوراک پھلوں، سبزیوں اور مچھلی پر مشتمل تھی۔
تحقیقی ٹیم نے دس سال تک ان افرا د کو اپنے رابطے میں رکھا۔ اس دوران 739 افراد انتقال کرگئے۔ مرنے والوں میں سے 40 فی صد ایسے لوگ تھے جو زیادہ چکنائی کی غذا استعمال کررہے تھے۔ جب کہ 37 فی صد کا تعلق زیادہ چینی استعمال کرنے والے گروپ سے تھا۔
مرنے والوں میں سب سے کم شرح پھل سبزیاں اور مچھلی کھانے والوں کی تھی۔ اور جب تحقیق میں شامل تمام افراد کی صحت کے معیار کا جائزہ لیا گیا تو اسی گروپ کے افراد کی صحت بھی سب سے اچھی تھی۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر گوشت کھانے والوں میں ہلاکت کی شرح متوازن خوراک استعمال کرنے والوں کے برابر تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید اس کی وجہ یہ ہے، نباتات جانوروں کی خوراک کا بنیادی حصہ ہوتا ہے اور گوشت خور افراد بالواسطہ طور زیادہ سبزیاں اور پھل اور اناج وغیرہ کھارہے ہوتے ہیں۔
تاہم بعض ناقدین نےتحقیق میں صرف دو شہروں کے رضاکار شامل کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتائج تمام علاقوں پر منطبق نہیں کیے جاسکتے کیونکہ موسم، آب وہوا اور ماحول بھی صحت اور عمر کی طوالت پر اثرانداز ہوتاہے۔ اس تحقیق کے نتائج غذا سے متعلق امریکی ادارے کے جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔