دنیا بھر میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پابندیوں میں نرمی کی جارہی ہے اور کاروبار زندگی کو رفتہ رفتہ معمول پر لایا جارہا ہے۔ لیکن، لوگوں کو اندازہ ہورہا ہے کہ معمول کے معنی بدل رہے ہیں۔
تعلیمی ادارے، دفاتر، عوامی سفر کے ذرائع اور ریستوران لاک ڈاؤن کے بعد کی زندگی میں اگلے محاذ پر ہیں۔ سب کچھ کھلتا جا رہا ہے۔ لیکن، سب کچھ اتنا مختلف کیوں ہے؟ یہ نہیں کھل رہا۔
کرونا وائرس کی ویکسین بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور اس میں اگر سال نہیں تو غالباً مہینے ضرور لگیں گے۔ ان حالات میں کروڑوں افراد کی روزمرہ زندگی کی صورت کیسی ہوگی۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اہم شعبے سماجی فاصلے کو کیسے ممکن بنائیں گے اور وبا کی نئی لہر کو کیسے روکا جائے گا۔
مختلف ملکوں میں معمولات کی طرف واپسی کے معنی مختلف ہیں۔ بھارت میں بھوک سے بے حال مزدوروں کے لیے اس کا مطلب ٹرین کا پہیہ چلنا ہے اور اب وہ اپنے دیہات واپس جاکر کھیتی باڑی کرسکتے ہیں، کیونکہ شہروں میں ان کے روزگار ختم ہوگئے ہیں۔
سمندر میں پھنسے ہوئے تفریحی جہاز کے ملازم کروشیا کے سیکڑوں کارکنوں کے لیے اس کا مطلب مہینوں بعد ساحل پر پہنچنا ہے۔ کیلی فورنیا کے دولت مندوں کے لیے اس کا مطلب بیورلے ہلز میں مہنگی بوتیک کا دوبارہ کھلنا ہے جہاں وہ خریداری کے لیے جاسکتے ہیں۔
برطانوی ایوان زیریں دارالعوام میں کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر جیکب ریس موگ کا کہنا ہے کہ کئی ہفتوں سے گھر سے کام کرنے والے ارکان پارلیمان 2 جون کو لندن واپس آئیں اور یہاں کام شروع کریں۔ انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معمولات کو جاری رہنا چاہیے۔
لیکن خیال ہے کہ حکام ایوان میں آنے والے ارکان کی تعداد کو محدود رکھیں گے جہاں عموماً قانون ساز لمبی بینچوں پر ساتھ ساتھ بیٹھتے تھے۔
اٹلی میں اچھا کھانا زندگی کا لازمی حصہ ہے اور وبا سے پہلے ریستوران بھرے ہوئے رہتے تھے۔ انھیں دوبارہ کھلنے پر سماجی فاصلے پر سختی سے عمل کرنا پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے شدید مالی نقصانات کا سامنا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس شعبے کو اس سال 30 ارب یورو کا خسارہ اٹھانا پڑے گا۔
بعض ریستوران پیر کو کھلے ہیں جن میں میزوں کی تعداد تین فٹ کا فاصلہ یقینی بنانے کے لیے نصف کردی گئی۔ داخلے پر ہینڈ سینی ٹائزر رکھا گیا ہے جبکہ مینیو فون پر دیکھا جاسکتا ہے۔
مشرقی یورپ کے ملک سلواکیہ میں کرونا وائرس سے صرف 28 اموات ہوئی ہیں لیکن احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جارہا ہے۔ ملک میں بدھ کو تھیٹر، سینما اور شاپنگ مال کھول دیے گئے۔ لیکن ان میں آنے والوں کی تعداد محدود کی گئی ہے۔
نیدرلینڈز کی مہمانداری کی صںعت کے رہنماؤں نے یکم جون سے ریستوران اور بار کھولنے کے حکومتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن خبردار کیا ہے کہ سماجی فاصلے کی پابندیوں سے کاروبار میں نقصان ہوگا۔ ان رہنماؤں نے حکومت سے کہا ہے کہ ان کے شعبے کی بحالی کے لیے زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔
کیمبرج برطانیہ کی پہلی یونیورسٹی ہے جس نے آئندہ تعلیمی سال میں کلاس روم کے تمام لیکچر منسوخ کردیے ہیں اور کہا ہے کہ اگلے سال موسم گرما تک تمام لیکچر آن لائن ہوں گے۔ دوسری جانب انڈیانا کی نوٹرے ڈیم یونیورسٹی نے اگست میں سیمسٹر شروع اور تھینکس گیونگ سے پہلے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یونیورسٹی آنے والوں کو ماسک فراہم کیے جائیں گے اور ان کے ٹیسٹ بھی ہوں گے۔
جنوبی کوریا میں ہائی اسکول کے لاکھوں بچوں کی پڑھائی بدھ سے دوبارہ شروع ہوگئی۔ ان سب کے ٹمپریچر چیک کیے گئے اور انھوں نے ہینڈ سینی ٹائزر کا استعمال کیا۔ طلبہ اور اساتذہ ماسک لگارہے ہیں، جبکہ بعض اسکولوں نے ہر ڈیسک کے اطراف پلاسٹک شیٹس لگائی ہیں۔
فرانس کے پرائمری اسکولوں میں تمام بچوں کو واپس نہیں آنے دیا جارہا۔ ان بچوں کو ترجیح دی جارہی ہے جن کے والدین لازمی خدمات انجام دیتے ہیں یا جنھیں زیادہ ضرورت ہے۔ کچھ بچوں کو ایک دن چھوڑ کے بلایا جارہا ہے جبکہ ہائی اسکول بدستور بند ہیں۔
اگرچہ لوگ دکانوں کے کھلنے اور گھر سے باہر کھانے کے مواقع ملنے پر خوش ہیں لیکن نئے معمول کے حالات دیکھ کر روزگار کے تحفظ کے بارے میں پریشان بھی ہیں۔ پیرس کی فارمرز مارکیٹ میں بدھ کو دکاندار ماسک اور گلو پہنے موجود تھے لیکن خریداری کرنے والے کم تھے۔
اسپین کے شہر بارسلونا میں اگرچہ لوگوں کو ساحل سمندر پر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ لیکن، وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے قانون سازوں سے کہا ہے کہ ہنگامی حالت میں دو ہفتے کی توسیع کے لیے ان کا ساتھ دیں۔ لیکن اپوزیشن پارٹی نے ان کا منصوبہ مسترد کردیا ہے۔