پاکستان میں پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحیٰی آفریدی کو چیف جسٹس مقرر کرنے کی منظوری دے دی ہے
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سےجسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس مقرر کرنے کی سفارش وزیر اعظم کو بھیج دی ہے۔ بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی نے دوتہائی اکثریت سے جسٹس یحیٰی آفریدی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کے تین ارکان نے کمیٹی اجلاس کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔
گزشتہ روز ہی پاکستان کے آئین میں چھبیسویں ترمیم کی منظوری دی گئی تھی جس کے بعد سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنانے کی بجائے تین سینئر ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس بنانے کا اختیار پارلیمانی کمیٹی کو دیا گیا تھا۔
پاکستان کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے بنائی گئی پارلیامانی کمیٹی کا دوسرا سیشن رات نو بجے کے بعد شروع ہوا تھا۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ ن سے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف ،وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ، وفاقی وزیر احسن اقبال،شائستہ پرویز ملک ،پیپلزپارٹی سے فاروق ایچ نائیک، راجہ پرویز اشرف ، نوید قمر ،جے یو آئی سے سینیٹر کامران مرتضی ، اور ایم کیو ایم سے رعنا انصر شامل تھے
منگل کے دن چار بجے کمیٹی کے پہلے سیشن میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کے اراکان نے شرکت نہیں کی ۔ پی ٹی آئی کو منانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے شرکت سے انکار کردیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی سے پارلیمانی کمیٹی اراکین اور بیرسٹر گوہر کی ملاقات
پاکستان میں نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے قائم کی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے ارکان نے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین سے ملاقات کی ہے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق آج کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر احسن اقبال، رعنا انصار، راجہ پرویز اشرف اور کامران مرتضیٰ پر مشتمل ایک ذیلی کمیٹی نے سنی اتحاد کونسل کے اراکین سے ملاقات کی اور انہیں اجلاس میں شرکت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔
بعد ازاں ذیلی کمیٹی نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے ملاقات کی۔ اس دوران پی ٹی آئی رہنما اور سنی اتحاد کونسل کے رکن بیرسٹر گوہر نے بھی شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق اسپیکر اسمبلی اور کمیٹی اراکین نے سنی اتحاد کونسل کو کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی۔ لیکن بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کریں گے۔
چھبیسوی آئینی ترمیم سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہونے کا خدشہ ہے: ایچ آر سی پی
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے آئین میں کی گئی 26ویں ترمیم کے بعض پہلوؤں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
منگل کو جاری ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے کہا کہ اگرچہ ترامیم پہلے کے مسودوں میں تجویز کردہ ترامیم کے مقابلے میں معتدل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ خدشہ ہے کہ اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی۔
بیان میں کہا گیا کہ آئینی بینچز کے قیام اور ان کی تشکیل کے طریقۂ کار پر تحفظات ہیں کیوں کہ عملی طور پر یہ خدشہ ہے کہ ان بینچز کی ساکھ براہِ راست سیاسی دباؤ کے زیرِاثر آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے چیف جسٹس کی نامزدگی کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی حکومتِ وقت کو ایک خطرناک برتری فراہم کرتی ہے جس کے نتیجے میں عدلیہ حکومت کے زیرِ اثر آ سکتی ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق اسے آرٹیکل 184 (3) میں ترمیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 9 اے ایک ایسی ترمیم ہے جس کی طویل عرصے سے ضرورت تھی۔ حکومت کو اسے فوری نافذ کرنا چاہئے۔
پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس: 'اگر کوئی رکن نہیں آتا تو کمیٹی کی کارروائی نہیں رکے گی'
- By ایم بی سومرو
چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کے لیے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے شرکت نہیں کی۔
وفاقی وزیرِ قانون اور کمیٹی کے رکن اعظم نذیر تارڑ نے تحریک انصاف کے ارکان کو منا کر اجلاس میں لانے کی تجویز دی اور کمیٹی کے چار اراکین راجا پرویز اشرف، احسن اقبال، کامران مرتضیٰ اور رعنا انصار کو پی ٹی آئی ارکان سے ملنے کا کہا ہے۔
واضح رہے کہ26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی ہےجس کے پہلے سیشن میں نو ارکان شریک ہوئے۔
وزیرِ قانون نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 175 کے مطابق کمیٹی کی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی تعیناتی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی رکن نہیں آتا تو کمیٹی کی کارروائی نہیں رکے گی۔ ہمارے پاس مطلوبہ نمبرز موجود ہیں مگر چاہتے ہیں کہ باقی اراکین بھی آئیں۔
کمیٹی کا دوسرا سیشن ساڑھے آٹھ بجے ہوگا۔