پنجاب کالج واقعہ؛ ’پولیس پہلے خاموش رہی جب کیس لگا پھر کارروائی شروع کی گئی‘
لاہور ہائی کورٹ میں تعلیمی اداروں میں مبینہ حراسگی کے واقعات کی تحقیقات اور فیک نیوز کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی ہے۔
سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی پنجاب پولیس سمیت دیگر افسران چیف جسٹس عالیہ نیلم کی عدالت میں پیش ہوئے۔
وفاقی حکومت کے وکیل اسد باجوہ نے رپورٹ عدالت میں پیش کی جب کہ ایف آئی اے کی رپورٹ میں عدالتی حکم کے مطابق بچیوں کے نام نہیں لکھے گئے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم کا رپورٹ کے حوالے سے کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ تفصیلی اور کافی بڑی ہے۔ رپورٹ پڑھ کر پھر اس کیس کو دیکھیں گے۔
بینچ میں شامل جسٹس علی ضیا باجوہ نے استفسار کیا کہ کیا پولیس نے بھی پنجاب کالج واقعے کی ایف آئی آر درج کی ہے۔
اس پر پولیس کے آئی جی کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس پہلے خاموش رہی جب کیس لگا پھر کارروائی شروع کی گئی۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی کارروائی ملتوی کر دی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کی بندش کے خلاف درخواست پر سماعت
لاہور ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کی بندش کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم آ چکی ہے۔ درخواست گزار استدعا سے باہر کوئی بات کر سکتا ہے نہ ہی سوال اٹھا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سوشل میڈیا ایپس پر کوئی پابندی ہے۔ اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے آگاہ کیا کہ وزارتِ داخلہ کی جانب سے ایکس پر پابندی کا اعلامیہ موجود ہے۔
اس دوران درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ میڈیا پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ بینچ میں شامل جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ ہمارے سامنے یہ کیس نہیں ہے۔ آپ ایکس پر پابندی کے خلاف آئے ہیں۔
اس دوران چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ سب کا وقت قیمتی ہے۔ عدالت کا تو بہت قیمتی ہے۔ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے اس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں کس جماعت سے کون شامل؟
چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تقرر کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی میں حکومت کے آٹھ اور اپوزیشن کے چار ارکان شامل ہیں۔
قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ سے جاری سرکاری اعلامیے کے مطابق اس پارلیمانی کمیٹی میں سینیٹ سے چار ارکان شامل ہیں جن میں سے دو کا تعلق حکومت اور دو کا اپوزیشن سے ہے۔
حکومت کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذر تارڑ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کمیٹی میں شامل ہیں۔
ایوان بالا میں اپوزیشن سے تحریکِ انصاف کے سینیٹر علی ظفر اور جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کو کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے۔
اسی طرح ایوانِ زیریں سے حکومتی جماعتوں مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ قومی اسمبلی وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی وترقی احسن اقبال، شائستہ پروز ملک، پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر اور متحدہ قومی موومنٹ کی رعنا انصار کمیٹی میں شامل ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے رکن اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین گوہر علی خان اور صاحب زادہ حامد رضا کو کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کا پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے مکمل طور پر الگ رہنے کا فیصلہ
تحریکِ انصاف کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اعلان کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی چیف جسٹس کے تقرر کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے مکمل طور پر الگ رہے گی۔
اس کمیٹی میں چھبیسویں آئینی ترمیم پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں رائے شماری کے دوران پارٹی پالیسی پر عمل نہ کرنے والے اراکین کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی عمل میں لانے کی منظوری بھی دی گئی۔
اجلاس میں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے اراکینِ پارلیمان کی بنیادی جماعتی رکنیت کی منسوخی سمیت ان کے خلاف حتمی تادیبی کارروائی پر اتفاق کیا گیا۔