پاکستان میں کرونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کیلئے دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی پابندی عائد کرنا پڑی۔ اس لاک ڈاؤن میں جہاں لوگوں کو اور مشکلات برداشت کرنا پڑیں وہیں بعض جدید سہولتیں ان کے لئے پریشانی کا باعث بن گئیں، جن میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی شامل ہے۔
اگرچہ انٹرنیٹ نے نہ صرف طالب علموں کی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیا بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق دفاتر اور محکموں کو یہ سہولت فراہم کی کہ ان کے ملازمین گھر پر رہ کر اپنے فرائضِ منصبی ادا کریں۔ مگر ساتھ ہی وہ لوگ جو کبھی کبھار اپنے فون سے نظریں ہٹا لیتے تھے، باہر نکل کر دنیا پر نظر ڈال لیتے تھے، پوری طرح اپنےکمپیوٹر سے جڑ کر بیٹھ گئے۔
بعض اوقات انسان ایسی حرکات میں ملوث ہو کر کسی دوسرے کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ اور ایسے ہی کچھ انسانوں نے انٹرنیٹ کو دوسروں کو ہراساں کرنے اور انھیں ایذا پہنچانے کا ذریعہ بنا لیا۔ لیکن، اس کا نشانہ زیادہ تر معصوم اور کمزور عورت ذات ہی بنی۔ اور پھر ہراساں کرنے کا یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ شکایتوں کے انبار لگ گئے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان میں انٹرنیٹ کے صارفین کے حقوق کی تنظیم ہے۔ اس کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں آن لائن ہراساں کئے جانے کی شکایات میں 189 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
نگہت داد ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر انہیں جو شکایات ملیں وہ اس بارے میں تھیں کہ کسی سابق ڈیٹا کی بنیاد پر کسی کو بلیک میل کیا جا رہا تھا، کسی سے یہ کہا جا رہا تھا کہ اس کی تصاویر آن لائن لگا دی جائیں گی۔ نگہت داد کے بقول، بعض اوقات لڑکیاں اتنی پریشان ہوئیں کہ ان کا کہنا تھا اگر کچھ نہ ہوا تو یا تو ان کے گھر والے انہیں مار دیں گے یا وہ خود کشی کرلیں گی۔ تاہم، وہ کہتی ہیں کہ ان شکایات کی رپورٹ کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ سائبر کرائم ونگ کے دفاتر لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند تھے۔
حجا کامران میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نامی آن لائن تنظیم میں ڈیجیٹل رائٹس کی پروگرام مینیجر ہیں۔ آن لائن ہراساں کئے جانے کی شکایات میں اضافے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں کسی کو پریشان کرنے یا ڈیجیٹل طریقے سے ہراساں کرنے والوں کو کافی وقت درکار ہوتا ہے جو لاک ڈاؤن نے آسانی سے مہیا کر دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ آن لائن ہراساں کئے جانے کی شکایات میں اضافے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے پہلے یہ شکایات نہیں ہو رہی تھیں بلکہ وقت کے ساتھ لوگوں میں آگاہی پیدا ہوئی اور ایک مربوط سپورٹ سسٹم بن جانے سے شکایت پہنچانا آسان ہوا۔ اور دوسرے، شکایات درج کروانے میں رکاوٹ یہ بھی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ شکایت سائبر کرائم سے متعلق ونگ کے دفتر آکر درج کروائی جائے۔
وقار چوہان ایف آئی اے کے نیشنل ریسپونس سنٹر فار سائبر کرائم ونگ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نے اپنی رپورٹ ان سے شئیر نہیں کی نہ ہی ان سے کوئی رابطہ کیا ہے۔
انہوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے دفاتر بند تھے یا یہ کہ شکایت درج کروانے کیلئے ان کے دفتر آنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سائبر جرائم کی کوئی حد یا سرحد نہیں ہوتی اس لئے ان کا شکار ہونے والوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے کسی بھی حصے سے کسی بھی سائبر کرائم کی شکایت ہیلپ لائن 9911 پر فون کر کے helpdesk@nr3.gov.pk پر ای میل کر کے یا ویب سائٹ www.nr3.gov.pk کے ذریعے درج کروائی جاسکتی ہے یا ذاتی طور پر ایف آئی اے کے زونل آفس میں آکر بیان کی جا سکتی ہے۔
ایف آئی اے میں سائبر کرائم ونگ کے سربراہ وقار چوہان نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے دفتر کو بلیک میلنگ کی 403 اور ہراساں کرنے کی 636 شکایات موصول ہوئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا دفتر کھلا تھا چنانچہ ہمیں دیگر کسی فاؤنڈیشن کے مقابلے میں زیادہ شکایتیں موصول ہوئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کا ونگ ہر شکایت کے ازالے کیلئے حرکت میں آتا ہے اور ملزموں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے ان کے عملے نے رمضان میں بھی کئی کئی گھنٹے کے آپریشن کئے اور ملزموں کو گرفتار کیا۔
وقار چوہان نے بتایا کہ ان کا محکمہ جانتا ہے کہ سائبر کرائم خاص طور پر بلیک میلنگ اور ہراساں کئے جانے کے بعد کسی انسان کی ذہنی حالت بگڑ سکتی ہے اور جذباتی طور پر اسے سخت دھچکہ پہنچ سکتا ہے اسی لئے حال ہی میں انہوں نے پانچ نفسیاتی ماہرین کو اپنے ہاں مقرر کیا ہے۔ یہ نفسیاتی اور ذہنی امراض کی ماہرین شکایت لے کر آنے والوں کی ذہنی حالت کے مطابق انہیں نفسیاتی مدد بھی فراہم کرتی ہیں۔ ان سے بات کرتی ہیں اور ان کے گھر والوں کو بھی صورتِحال سے نمٹنے میں مدد دیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سائبر جرائم کی روک تھام کیلئے اپنے محکمے اور حکومت کی کوششوں کے بارے میں اور لوگوں کیلئے موجود سہولتوں کے بارے میں آگاہی کے لئے ملک کے ممتاز اینکر پرسنز، سیاستدانوں اور دیگر اہم شخصیات سے مدد لی گئی کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اسے شئیر کریں تاکہ ان کے ہزاروں فالوورز کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ معلومات پہنچائی جا سکیں۔
انہوں نے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی حالیہ رپورٹ کے بارے میں کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں موصول ہونے والی تمام شکایات پر کارروائی کی جارہی ہے۔ اور ان کا سائبر ونگ شکایت کرنے والوں کے ساتھ رابطے میں ہے، چھان بین شروع کر دی گئی ہے اور کئی گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔