پاکستانی ڈراموں کی اداکارہ اور ماڈل سونیا حسین کا کہنا ہے کہ ہمارا معاشرہ تنگ نظر ہے اس لیے خواتین کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر خود ہی آواز بلند کرنا ہوگی۔ ہم محض مظلوم بن کر نہیں جی سکتے۔ ہمیں خود کو آگے بڑھانا ہو گا۔ اپنے حق کے لیے لڑنا ہو گا۔ خود پر اعتماد کرنا ہو گا۔ محض شادی کر کے اپنا ہم سفر چننا ہی ہمارا مقصد نہیں ہونا چاہیے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ 'انسٹاگرام لائیو' میں سونیا کا کہنا تھا کہ خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کا عمل گھر سے ہی شروع ہونا چاہیے۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ عورت مارچ کا مقصد پیغام پہنچانا ہے اس لیے اسے جاری رہنا چاہیے اور اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اگر جملے بدلنا بھی پڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہراساں کیے جانے سے روکنا بعض اوقات انتہائی مشکل ہو جاتا ہے اسی لیے میں نے انجلین ملک کے ساتھ مل کر ایک مہم کا آغاز کیا جس کا عنوان تھا "انکار کرو۔" اس مہم کا مقصد خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کرنا تھا۔
ان کے بقول "میرے خیال میں ہمیں گھر سے ہی اس بات کی تربیت ملنی چاہیے تاکہ ہر لڑکی یہ جان سکے کہ اس کے حقوق کی پامالی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔"
سونیا کہتی ہیں کہ بعض اوقات جنسی ہراسانی نہیں ہوتی بلکہ الفاظ کے ذریعے خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ "جس وقت میں نے اداکاری شروع کی تو بہت سے لوگوں نے لفظوں کے ذریعے مجھے ہراساں کیا۔ جیسے کہ وہ کہتے کہ یہ کل کی بچی ہے۔ اسے کام کرنا تو آتا ہی نہیں۔ ان باتوں سے میری اتنی حوصلہ شکنی ہوئی کہ میں نے ایک طویل عرصے تک کام کرنا بند کردیا۔ مگر پھر میں آگے بڑھی اور اپنی محنت سے سب کچھ سیکھا۔"
سونیا کا مزید کہنا تھا کہ کئی بار ایسا ہوا کہ سیٹ پر چند مردوں نے خواتین سے متعلق نازیبا مذاق کیا جس پر مجھے انہیں روکنا پڑا۔ چوں کہ میں نے کسی بدتمیزی کے بغیر انہیں عامیانہ مذاق کرنے سے روکا تھا، اس لیے انہوں نے بھی بڑے دل کے ساتھ میری بات مان لی۔
سونیا حسین کہتی ہیں کہ بطور ایک اداکارہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ انہیں اپنے کام کی بدولت خواتین میں آگاہی پھیلانے کا موقع ملا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی سونیا حسین 1991 میں پیدا ہوئیں۔ 2017 میں نشر ہونے والی ڈرامہ سیریل 'ایسی ہے تنہائی' میں پاکیزہ اسلام کا کردار ادا کرنے پر انہیں 'لکس اسٹائل ایوارڈ' میں بہترین اداکارہ کے لیے نامزد کیا گیا۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 2011 میں ڈرامہ 'دریچہ' سے کیا تھا۔ ان کے کالج میں ایک نجی ٹی وی پر نیوز کاسٹر کے لیے آڈیشنز منعقد ہوئے تھے جس میں انہوں نے بھی آڈیشن دیا تھا۔ مگر وہ نیوز کاسٹر تو نہ بن سکیں البتہ ایک ہدایت کار نے انہیں ڈرامے میں کام کرنے کی آفر کی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔ اور یوں وہ دریچہ میں اداکاری کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
سونیا حال ہی میں ایک ذہنی مرض میں مبتلا لڑکی کا رول ادا کر رہی تھیں لیکن وہ پروجیکٹ کرونا وائرس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گیا۔ اس پروجیکٹ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ "میں ذہنی مرض میں مبتلا لڑکی کا کردار نبھانے جا رہی ہوں، سماجی دوری سے مجھے اس کردار کے خدوخال سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ مجھے وقت ملا کہ میں ذہنی مرض میں مبتلا انسان کی دوریوں کو سمجھ پاؤں۔ میں نے ذہنی امراض کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اس لیے میں ان کی پیچیدگیوں کو سمجھ سکتی ہوں۔"
سونیا کی ایک بہن اور ایک بھائی بھی ہے۔ ان کی والدہ نے اپنے بچوں کی تنہا پرورش کی ہے۔ سونیا کی والدہ بھی ڈیپریشن کا شکار رہی ہیں۔ بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے سونیا نے بتایا کہ "جب میں چھوٹی سی تھی تو میری امی زمین پر لیٹی ہوئی تھیں۔ میں ہنسنے لگی کہ آپ زمین پر کیوں لیٹی ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ انہیں کیا ہوا ہے۔ وہ جواب بھی نہیں دے رہی تھیں۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ ذہنی دباؤ کا اس قدر شکار تھیں کہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔"
سونیا کہتی ہیں کہ "ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں سمجھ بوجھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ذہنی دباؤ کے شکار شخص کو لوگ ڈاکٹر کے بجائے دم درود کے لیے لے جاتے ہیں۔ اس مرض کے ساتھ سماجی نفرت بھی جڑی ہے۔ اس لیے مجھے ایسے کردار نبھا کر اچھا لگتا ہے جن سے آگاہی پیدا ہو۔"
ان کا کہنا ہے کہ سماجی دوری کے اس ماحول میں ہم سب کو چاہیے کہ ہم خود کو جانیں اور زیادہ وقت اپنے پیاروں کے ساتھ گزاریں۔