سرطان کی بیماری میں مبتلہ لیبیا کا سابق انٹیلی جنس عہدے دار جسے 1988ء کے لاکربی سانحے کے سرغنے کے طور پر سزا دی گئی تھی، طرابلس میں انتقال کرگیا، جس سے تقریباً تین برس قبل اُسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسکاٹ لینڈ کے حکام نے جیل سے رہا کیا تھا۔
عبدالباسط المگراہی کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اُن کا انتقال اتوار کے روز اُن کے گھرپر ہوا۔ اُن کی عمر 60برس تھی۔
المگراہی وہ واحد شخص تھاجسے اسکاٹ لینڈ کے لاکربی قصبے کے اوپر پرواز کرنے والے امریکی مسافر طیارے کی پرواز 103پر حملہ کرکے گرانے کا الزام ثابت ہوا اور اُسے سزا ہوئی۔
اِس واقع میں 270افراد ہلاک ہوئے ، جن میں سے 11افراد کی ہلاکت ملبہ گرنے کے باعث ہوئی۔
اسکاٹ لینڈ کی ایک عدالت نےمقدمے کی سماعت ایک غیر جانبدارملک ہالینڈ میں کی، اورسنہ 2001 میں المگراہی کو ملوث پایا جس سے دو ہی برس قبل، اُس وقت کے لیبیا کے لیڈر معمر قذافی نے اُسے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے نیدرلینڈ کے حوالے کیا تھا۔
المگراہی نے اسکاٹ لینڈ کی جیل میں آٹھ سال عمر قید کاٹی، جس کے بعد اسکاٹ لینڈ کے حکام نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اُسے 2009ء میں رہا کیا، جس کا سبب پروسٹیٹ کینسر کی بیماری بتائی گئی۔ اُس وقت اسکاٹ لینڈ کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ تین ماہ تک زندہ رہ سکتا ہے۔
المگراہی لیبیا واپس آیا تو قذافی کی حکومت نے اُس کا ایک ہیرو کے طور پر خیرمقدم کیا، جس کے باعث بمباری کے واقع میں ہلاک ہونے والے مسافروں کے متعدد لواحقین کی طرف سے مذمتی بیان سامنے آئے۔ امریکی حکومت نے بھی اُس کی رہائی پر تنقید کی تھی۔
استغاثے کا کہنا تھا کہ المگراہی بم حملے کی اُس خفیہ کارروائی کا ایک حصہ تھا جسے لیبیا کے انٹیلی جنس ادارے کے احکامات کے نتیجے میں عمل میں لایا گیا۔
اِس مقدمے میں پیش ہونے والے مالٹا کے ایک دکاندار کی گواہی کلیدی اہمیت کی حامل تھی، جس میں اُنھوں نے اُس راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ اُن سے المگراہی نے جو قمیض خریدی تھی، اُسی میں اُس بم کو لپیٹا گیا، جو مسافر طیارے کی تباہی کا سبب بنا۔
المگراہی نے قمیض خریدنےکے معاملے یا اُس حملے میں کسی کردار ادا کرنے کی تردید کی تھی۔