لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی بالآخر اپنے انجام کو پہنچے اور ان کی موت کے ساتھ ہی باغیوں کے ساتھ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ان کی لڑائی بھی اختتام پذیر ہوئی۔ آخری وقت تک برسرِ اقتدار رہنے پہ بضد قذافی کا 40 سالہ طویل اقتدار ان کی ضد اور ہٹ دھرمی ہی سے عبارت ہے۔
معمر قذافی کی عمر اس وقت صرف 27 برس تھی جب انہوں نے بحیثیت ایک نوجوان فوجی افسر 1969ء میں لیبیا کے اس وقت کے بادشاہ کے خلاف فوجی بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔
کچھ ہی عرصہ میں ان کی شہرت مغربی دنیا کے کڑے ناقد اور منہ پھٹ عرب حکمران کی حیثیت سے ہوگئی۔ آنے والے دنوں میں قذافی نے فوج کی وردی اتار پھینکی اور عرب قوم پرستی کا نعرہ بلند کرکے عرب دنیا کے اتحاد کے داعی بن بیٹھے۔ اس کے بعد کے عرصے میں قذافی کی تام جھام، طویل اور غصیلے خطابات اور خوب صورت دوشیزاؤں پر مشتمل محافظ دستہ عالمی سیاست میں ان کا طرہ امتیاز ٹہرے۔
جیرالڈ پوسٹ امریکہ کی 'جارج واشنگٹن یونی ورسٹی' میں 'سیاسی نفسیات ' کے پروگرام ڈائریکٹر ہیں۔ قذافی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ "ہماری زیادہ تر توجہ ان کے شخصیت کے انہونی اور غیر معمولی پہلووں پر مرکوز رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ قذافی نے اپنی سیاسی زندگی کا بیشتر حصہ متحرک رہ کر گزارا۔ خاص طور پر وہ بین الاقوامی فورمز پر خاصے سرگرم رہے۔ وہ خاصے پرکشش ہوتے اگر اپنے لیے اس عجیب طرزِ حیات کا انتخاب نہ کرتے جو ان کی شناخت بنا"۔
قذافی نے اپنے ملک میں ایک ایسا سماجی، سیاسی اور معاشی نظام نافذ کیا جسے وہ 'جمہوریہ' قرار دیتے تھے یعنی عوامی ریاست۔ انہوں نے اپنے ان سیاسی نظریات کی وضاحت اپنی معروف کتاب میں کی جو 'گرین بک' یا 'سبز کتاب' کے نام سے مشہور ہے۔ انہوں نے ایک ایسے ملک کا خاکہ پیش کیا جہاں کوئی ادارہ نہ ہو، جسے عوام خود چلائیں، اور جس کے قیادت ان کے، یعنی قذافی کے، اپنے ہاتھ میں ہو۔
تاہم امریکی تھنک ٹینک 'مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ' کے ڈینئل سرور کہتے ہیں کہ ان کا خواب کا ابتدائی حصہ خود ان ہی کے باعث حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔ انکے کے بقول "قذافی نے لیبیا کے عوام سے کہا کہ انہیں کونسلیں تشکیل دے کر اپنی حکمرانی انہیں سونپ دینی چاہیے۔ یوں دراصل خود قذافی نے عوام سے حقِ حکمرانی چھین لیا اور ان پر آمریت مسلط کردی"۔
ڈینئل سرور کا کہنا ہے کہ لیبیا کے تیل اور گیس کی دولت نے اندرونِ و بیرونِ ملک قذافی کے اثر ورسوخ کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے موصوف نے ان قدرتی ذخائر کو اپنے اور اپنے قریبی ساتھیوں کے مستقبل کے لیے سنبھال کر رکھا"۔
لیکن انکےکے بقول قذافی کی ایک اہم کامیابی یہ تھی کہ وہ لیبیا کے اتحاد کی ایک علامت بن چکے تھےاور یہ ایک ایسے ملک کی سلامتی کے لیے ایک بڑا سہارا تھا جو کئی طرح کی تقسیم کا شکارتھا۔
دہشت گردی سے تعلق کے الزامات نے قذافی کی بین الاقوامی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچایا۔ امریکہ نے انہیں 1986ء میں جرمنی کے ایک نائٹ کلب میں ہونے والے بم دھماکے کا موردِ الزام ٹہرایا جس میں دو امریکی فوجی مارے گئے تھے۔
عشروں طویل محاذ آرائی کے بعد بالآخر 2003ء میں قذافی مغرب کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ ہوئے اور اس ضمن میں کئی اقدامات کیے۔ انہوں نے 1988ء کے 'لاکربی بم حملے' کی ذمہ داری قبول کرلی جس میں 270 افراد ہلاک ہوئے تھےاور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اور دہشت گردوں کی پشت پناہی سے بھی اعلانِ برات کرڈالا۔
جواباً امریکہ نے لیبیا کے جوہری پروگرام میں استعمال ہونے والے آلات قبضے میں لے کر لیبیا پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھادیں اور باہمی سفارتی تعلقات بحال کرلیے۔
مغرب کے ساتھ مفاہمت کے بعد قذافی کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط ہوچلی تھی اور بظاہر ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہ رہا تھا۔ لیکن رواں برس کے آغاز میں جب 'بہارِ عرب' کی ہوائیں لیبیا کی صحرائی سرزمین پر پہنچیں تو ہزاروں لیبیائی باشندے قذافی کے عشروں طویل آمرانہ اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
مظاہرین نے قذافی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا جس کے جواب میں قذافی انتظامیہ سیاسی مخالفین کے خلاف پرتشدد ہتھکنڈوں پر اتر آئی۔
مظاہرین پر ہونے والے تشدد کے باعث جلد ہی دنیا بھی قذافی کی مخالف ہوگئی۔ اقوامِ متحدہ نے ان کی حکومت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کردیں اور نیٹو نے فضائی حملوں کا آغاز کردیا۔ لیکن قذافی اقتدار چھوڑنے سے انکاری رہے۔
انہوں نے اعلان کیا، "یہ لیبیا کے تیل کے ذخائر ہتھیانے، لیبیا کی سرزمین پر قبضے اور لیبیائی قوم کو غلام بنانے کی سازش ہے۔ یہ ناممکن ہے اور جب تک اس قوم کا ایک بھی فرزند زندہ ہے ہم لیبیا کے دفاع کی یہ جنگ جاری رکھیں گے"۔
لیکن جیرالڈ پوسٹ کہتے ہیں کہ قذافی کے نزدیک لیبیا دراصل ان ہی کا دوسرا نام تھا۔ "وہ خبطِ عظمت کا شکار تھے۔ ان کا یہ بیان ایسا ہی ہے کہ گویا وہ شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر خود سے ہی سوال کریں کہ تیسری دنیا، مسلمانوں اور افریقیوں کا سب سے عظیم رہنما کون ہے؟ اور پھر اپنی مرضی کا اور اپنے حق میں جواب پانے کے لیے جواز تلاش کرتے پھریں"۔
ڈینئل سرور بھی قذافی کے بارے میں اسی قسم کی رائے رکھتے ہیں۔ ان کے بقول "یہ فسطائیت کی سرشت میں ہے کہ وہ جمہوریت کی مزاحمت کرتی ہے حالاں کہ یہ انتہا درجہ کی بے وقوفی اور کوتاہ نظری ہے"۔
انجام کار، بدّو والدین کا فوجی بیٹا جو اپنے آپ کو قوم کو متحد کرنے والا قرار دیتا تھا، لیبیا کے لوگوں کو متحد کرگیا، اپنے خلاف متحد۔۔۔