لندن کی ایک بس میں دو مسلمان عورتوں کو نسل پرستانہ زیادتی کا نشانہ بنانے والی مسافر عورت کو میٹرو پولیٹن پولیس نے دھمکی آمیز رویے پر پبلک آرڈر جرائم کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔
نسلی امتیاز پر مبنی اس واقعہ کی ویڈیو فوٹیج سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وائرل ہے، جسے اس بس میں سوار ایک مسافر مائیکو ابریگو نے ریکارڈ کرنے کے بعد اپنے فیس بک کے صفحے پر پوسٹ کیا تھا۔
اس واقعہ میں ایک حاملہ مسلمان عورت کو نسل پرستی کی بنیاد پر ہراساں کیا گیا تھا جسے ایک مسافر عورت کی طرف سے مبینہ طور پر گالیاں دی گئی تھیں۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کے مطابق یہ واقعہ 13 اکتوبر کی صبح لندن کی ایک بس 602 میں پیش آیا جو برینٹ پارک کے علاقے سے ویمبلی شمال مغربی لندن جا رہی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ 36 سالہ عورت کو جمعہ کی صبح اس کے گھر ویسلڈن گرین سے گرفتار کیا گیا اور اسے شمالی لندن کے تھانے میں رکھا گیا ہے جہاں اس سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
اسلام مخالف تاثرات رکھنے والی عورت کو 19 اکتوبر کو ہینڈن مجسٹریٹ کورٹ لندن میں پیش کیا جائے گا۔
یہ واقعہ نفرت پر مبنی جرائم کے بارے میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس حالیہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی علیحدہ درجہ بندی کی فہرست تیار کی جائے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس اس فوٹیج سے متعلق معلومات ہیں جو تحقیقات میں مدد کر سکتی ہے تو فوری طور پر پولیس سے رابطہ کیا جائے۔
لندن کے مقامی روزنامہ ایوننگ اسٹینڈرڈ کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ بس میں نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بننے والی عورتیں اطالوی باشندہ ہیں جن کی پیدائش مراکش کی ہے اور وہ اپریل کے مہینے میں اٹلی سے لندن منتقل ہوئی ہیں۔
اطالوی خاتون انگریزی بولنا نہیں جانتی ہے اور فرانسسی، عربی اور اطالوی زبانیں بول سکتی ہے وہ بس میں اپنی ایک تین سالہ بیٹی اور 52 سالہ ماں کے ہمراہ سفر کر رہی تھی۔
اس واقعہ کے ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت جس نے حجاب پہنا ہوا ہے اسے ایک مسافر عورت تقریباً پندرہ منٹ تک گالیاں دی جاتی رہی ہیں۔
وہ اسے کہتی ہے کہ تمھیں اپنے ملک واپس چلے جانا چاہیئے اور اس کے پیٹ پر لات مارنے کی دھمکی بھی دیتی ہے اس فوٹیج کے دوران دو بار ڈرائیور صورت حال سنبھالنے کے لیے مداخلت بھی کرتا ہے لیکن عورت کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا ہے۔
ذرائع کو ایک فرضی نام کے ساتھ انٹرویو دینے والی ام لینا نے بتایا کہ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ عورت اس سے کیوں ناخوش تھی۔
وہ اس کی کوئی بات نہیں سمجھ سکتی تھی اور اسی وجہ سے وہ انگریزی کے بجائے فرانسسی میں جواب دے رہی تھی جبکہ ایک موقع پر اس نے عورت کو پلیز شش کہا، جس کے بعد وہ عورت غصے سے بے قابو ہو گئی اور مزید اس پر چیخنا چلانا شروع کر دیا اور جب تک وہ اپنے اسٹاپ پر نہیں اتری وہ اسے مسلسل کوستی رہی۔
ام لینا کا کہنا تھا کہ میں حاملہ تھی اور مسافروں سے بھری ہوئی بس میں کھڑے ہو کر سفر کر رہی تھی، مجھے اس کی باتوں سے ڈر لگ رہا تھا۔
ام لینا کے مطابق مجھے امید تھی کہ بس کا کوئی مسافر میرے لیے کھڑا ہو گا جب کہ مجھے انگریزی زبان میں بات چیت کرنا نہیں آتی ہے لیکن، کسی نے میری حمایت میں کچھ نہیں کہا اور بالآخر میں ڈرائیور کے پاس گئی اور اسے پولیس کو فون کرنے کے لیے کہا جس پر اس کا جواب تھا کہ پولیس کو فون مجھے خود کرنا چاہیئے۔
لندن ٹرانسپورٹ میٹرو لائن کے ترجمان نے کہا کہ اس مسافر کا رویہ مکمل طور پر ناقابل قبول تھا اور یہ ہمارے ڈرائیور اور مسافروں دونوں کے لیے ناخوشگوار صورت حال تھی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈرائیوروں کو ایسے حالات میں پولیس کی مدد لینے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
کیا برطانیہ میں نسل کی بنیاد پر امتیاز برتا جاتا ہے اس سوال کا تناظر کچھ ایسے واقعات کے ساتھ جڑا ہے جب اسی سال برطانیہ میں ایک مسلمان مسافر خاتون پر شراب پھینکی گئی اور ایک واقعہ میں ایک خاتون کو بےحجاب کرنے کی کوشش میں اسے زدوکوب کیا گیا۔
یہ برطانوی ٹرانسپورٹ پر ہونے والے نفرت پر مبنی چند چونکا دینے والے واقعات کی مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں اسلام فوبیا میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی سڑکوں پر ہونے والے نفرت پر مبنی ساٹھ فیصد جرائم مسلمان عورتوں کے ساتھ رونما ہوئے۔
اخبار میٹرو کے مطابق برطانوی ٹرانسپورٹ پولیس کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ برس نفرت پر مبنی جرائم کی اوسط ہر دن میں چار رہی ہے اور یہ 2013ء کے مقابلے میں 100 فیصد اضافہ ہے۔
دوسری طرف نسل پرستی کے حوالے سے شائع ہونے والی کئی پچھلی جائزہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ میں تارکین وطن کےحوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ غیر ملکی باشندوں کے ملک میں سکونت اختیار کرنے سے برطانوی معاشرے کی اقدار کو نقصان پہنچا ہے جبکہ لگ بھگ 70 فیصد سفید فام سمجھتے ہیں کہ تارکین وطن معاشرے میں تعمیری کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔
تاہم لندن میں اسلام فوبیا سے متعلق جرائم میں اضافے کو دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات کے تناطر میں دیکھا جا رہا ہے۔