ہلری کلنٹن 2008 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی جیتنے کی دوڑ اُس وقت کے ایک نئے سینیٹر براک اوباما کے مقابلے میں ہار گئیں تھیں۔
ہلری کلنٹن کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ شکاگو کے ایک مضافاتی علاقے کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک خوش باش ننھی بچی، ایک کٹڑ ری پبلکن والد کی بیٹی کہتی ہے کہ وہ اپنی ڈیمو کریٹک والدہ کی وجہ سے سیاست میں داخل ہوئی۔
ہلری کلنٹن کی زندگی کے سفر سے متعلق وائس آف امریکہ کی سینڈی سین نے خصوصی رپورٹ تیار کی ہے جس کے مطابق ہلری کلنٹن کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ آٹھ سال کی عمر میں ہلری کو ان کے والدین نے خود سے الگ کر کے ان کے دادا دادی کے پاس رہنے کے لیے شکاگو سے لاس اینجلس بھیج دیا جو اسے رکھنا نہیں چاہتے تھے۔
ہلری نے اپنی ٹین ایج میں ایک نو عمر ری پبلیکن کے طور پر اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔ انہوں نے ویلسیلی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سیاست میں مزید متحرک ہو گئیں اور وہاں انہوں نے 1969 میں خواتین کے اسکول میں اسناد دیے جانے کے موقع پر تقریر کی۔
اس کے بعد انہوں نے ییل لا اسکول میں داخلہ لیا اور ایک ترقی پسند ڈیموکریٹ بن گئیں، جہاں لائبریری میں ان کی ملاقات ان کے مستقبل کے شوہر بل کلنٹن سے ہوئی۔ ان دونوں کی شادی 1975 میں ہوئی، اور وہ کلنٹن کے ساتھ ان کی آبائی ریاست آرکنسا چلی گئیں، جہاں ان کے شوہر 1978 میں گورنر منتخب ہو گئے۔
بل کلنٹن کے دور صدارت کے وائٹ ہاؤس کے ترجمان باب وینیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہلری کلنٹن اپنے شوہر بل کلنٹن یا صدر براک اوباما کے مقابلے میں مسئلے کو سمجھنے اور اس کا حل نکالنے کے معاملے میں زیادہ زیرک ہیں۔
’’وہ جانتی ہیں کہ ان کے پاس کوئی کرشماتی خوبی یا صلاحیت نہیں ہے لیکن ان کے پاس ذہانت، سمجھ داری اور حکمرانی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس میں بل کلنٹن کے مونیکا لونیسکی کے ساتھ جنسی اسیکنڈل میں ملوث ہونے کی مسلسل کہانیوں کا نتیجہ امریکی ایوان نمائندگان میں ان کے مواخذے کی شکل میں برآمد ہوا۔
کلنٹن دور کے وہائٹ ہاؤس کے ترجمان باب باب وینیر بتاتے ہیں کہ اسیکنڈل کے بعد کے کئی مہینے بہت کھٹن تھے۔
باب کے بقول ’’انہوں نے اپنی شادی شدہ زندگی کی ناکامی سے نجی طور پر نمٹے کی کوشش کی، لیکن وہ اس پورے مشکل دور میں باہم منسلک رہے۔ ان دنوں میں وہاں تھا۔ اور میں نے انہیں دیکھا تھا اور وہ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔‘‘
ہلری نے اپنا ایک الگ سیاسی کردار شروع کرنے کا راستہ نکالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سن 2000 میں نیویارک سے سینیٹر کا الیکشن جیتا اور پھر 2006 میں اس عوامی عہدے کے لیے دوبارہ منتخب ہوئیں۔ اور پھر 2008 میں صدر براک اوباما نے انہیں وزیر خارجہ بنا دیا۔
اپنی وزارت خارجہ کی مدت میں انہوں نے 112 ملکوں کے دورے کیے اور اپنی اس حیثیت کو خواتین کے حقوق اور سفارت کاری کی قوت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جسے نرم طاقت کا نام دیا گیا۔
اس ہفتے ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن کے موقع پر خاتون اول مشیل اوباما نے ہلری کلنٹن کے ریکارڈ اور کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’ایسے بہت سے لمحات تھے جب ہلری یہ فیصلہ کر سکتی تھیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے اور یہ کہ عوامی خدمت کی قیمت بہت زیادہ تھی، اور یہ کہ وہ اپنے بارے میں کی جانے والی اس قسم کی گفتگو سے تنگ آ چکی تھیں جن میں نہ صرف اس چیز کو موضوع بنایا جاتا تھا کہ وہ کیسی دکھتی ہیں، یا کیسے بولتی ہیں یا حتیٰ کہ یہ تک کہ وہ کیسے ہنستی ہیں۔ لیکن یہاں ایک چیز ہے۔ میں ہلری کی جس چیز کی سب سے زیادہ تعریف کرتی ہوں وہ یہ ہے کہ وہ کبھی دباؤ میں نہیں آتیں۔ وہ باہر نکلنے کا کبھی آسان راستہ نہیں ڈھونڈتیں۔ اور یہ کہ ہلری کلنٹن نے اپنی زندگی میں کبھی کسی چیز سے ہار نہیں مانی۔‘‘
اب ہلری کلنٹن ایک نامور کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف صدارتی انتخاب لڑ رہی ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔
ہلری کی زندگی کی کہانی یہ دکھاتی ہے کہ وہ 8 نومبر کو ہونے والے انتخاب کے دن تک اتنا سخت مقابلہ کریں گی جتنا کہ وہ کر سکتی ہیں۔