رسائی کے لنکس

درد کی مؤثر دوا ۔۔۔ تصویر جاناں


جب تقریباً دو سوسال قبل مرزاغالب نے یہ کہا تھا کہ

ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پررونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

تو ان کے گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ ان کے شاعرانہ تخیل کو ماہرین سائنسی تجربہ گاہوں میں پرکھ کراس پر مہر تصدیق ثبت کریں گے۔

حال ہی میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کی سٹین فورڈ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ایک سائنس دان ڈاکٹر شان میکے نے اپنی تحقیق کے نتائج پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ اپنے محبوب کا چہرہ دیکھنے سے درد میں اتنا ہی افاقہ ہوتا ہے جتنا کہ درد دور کرنے کی طاقت ور گولی کھانے سے۔

گولی سے درد تو دور ہوجاتا ہے لیکن وہ اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی منفی اثر چھوڑ جاتی ہے۔درد دور کرنے کی دواؤں کے سائیڈ ایفکس کی بنا پر ہی حالیہ عشروں میں کئی دواؤں کی فروخت پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ جب کہ مارفین اور کوکین کو تو منشیات قرار دیا جاچکاہے، لیکن پیار کا جادو، گرین انرجی کی طرح مضر اثرات سے پاک ہے۔

اسی طرح ریاست میری لینڈ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں ایک سائنس دان نوا لیچ زن کی سربراہی میں ہونے والی ایک اور تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ خوبصورت مناظر درد دور کرنے کی دواؤں کا ایک قدرتی بدل ہیں۔

اس سے قبل نفسیاتی ماہرین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ماں کی قربت اور اس کی پیار بھری نظر بچے کی تکلیف کم کردیتی ہے۔

سٹین فورڈ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹر شان میکے نے اپنے اس تجربے کے لیے ایسی 15 خواتین اور 15 مردوں کا چناؤ کیا جو ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔

تجربے کے دوران ان کی ہتھیلی میں دردپیدا کرنے والا ایک چھوٹاسا آلہ رکھا گیا جسے کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ درد کا احساس پیدا کرتے وقت انہیں اپنے اس ساتھی کی تصویریں دکھائی گئیں جس کے لیے ان کے دل میں پسندیدگی کے شدید جذبات موجود تھے۔

اس عمل کے دوران ان کے دماغ کا سیکن کیا گیا ۔

تجربے سے ظاہر ہوا کہ اپنی دل پسند شخصیت کی تصویر دیکھ کردماغ میں پیدا ہونے والی لہروں نے وہی اثر دکھایا جو درد دور کرنے والی ایک طاقت ور دوا کا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر میکے کا کہنا ہے کہ جب انہیں اپنی دل پسند شخصیت کی بجائے کسی اور خوبصورت چہرے کی تصویر دکھائی گئی تو اسے دیکھنے سے دماغ میں درد کا احساس دور کرنے والی لہریں تو پیدا ہوئیں لیکن وہ اتنی طاقت ور نہیں تھیں۔

ڈاکٹر شان میکے کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے یہ ظاہر ہوا کہ محبت کا جذبہ درد دور کرنے میں اتنا ہی مؤثر ہے جتنا کہ اس کے لیے استعمال کی جانے والی انتہائی طاقت ور دوائیں مارفین اور کوکین ۔ کیونکہ یہ جذبہ ، درد کا احساس دلانے والے دماغ کے حصوں اسی طرح متاثر کرتا ہے جس طرح مارفین ،کوکین اور درد دور کرنے کی دوسری طاقت ور دوائیں۔

اس تحقیق کے لیے 15 ایسے نوجوان جوڑوں کا انتخاب کیا گیا تھا جنہیں ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے ایک سال سے کم عرصہ ہوا تھا۔ ڈاکٹر شان میکے کا کہناہے کہ اس انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ پیار کی ابتدائی منزل میں جذبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں اور ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ شدید جذبات انسان کی دوسری کیفیات ، بالخصوص درد کے احساس کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ محبت کے شدید جذبات کی کیفیت ایک نشے کی سی ہوتی ہے کیونکہ وہ پیغامات جاری کرنے والے انسانی دماغ مخصوص حصے کی کارکردگی پر اثر ڈالتے ہیں ۔ جب کہ مارفین، کوکین اور دوسری نشہ آور دوائیں بھی اسی حصے کو متاثر کرتی ہیں۔

ڈاکٹر شان میکے کہتے ہیں کہ اگرچہ درد کا احساس ختم کرنے میں محبت کے جذبات اور نشہ آور ادویات کا اثر ایک جیسا ہوتا ہے لیکن دونوں کا طریقہ اور دونوں کے راستے مختلف ہیں۔

تحقیق کے دوران تجربے میں شامل افراد کو درد کا احساس دلاتے وقت ان کی توجہ منتشر کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ڈاکٹر جیرڈ ینگر جو ڈاکٹر میکے کے ساتھ اس ریسرچ میں شامل تھے، کہتے ہیں کہ دماغ کے سکین سے یہ ظاہر ہوا کہ توجہ ہٹانے سے درد کا احساس کم تو ہوا لیکن اتنا نہیں جتنا کہ اپنے محبوب کی تصویر دیکھنے سے اس میں کمی ہوئی تھی۔

XS
SM
MD
LG