پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز سے دکھائے جانے والے میوزیکل شو ’کوک اسٹوڈیو‘ کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ اس شو نے صرف قومی زبان کے نغموں اور گلوکاروں کو ہی آگے آنے کا موقع نہیں دیا بلکہ سندھی اور پشتو سمیت کئی علاقائی زبانوں کے فنکاروں کو تراش خراش کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ انہی فنکاروں میں سے ایک نام ’مائی ڈاھی‘ کا بھی ہے۔
مائی ڈاھی کا تعلق سندھ کی میٹھی بولی بولنے والے علاقے تھر سے ہے۔ وہ لوک فنکارہ ہیں۔ صوبائی سطح پر ان کی ایک الگ پہچان ہے مگر قومی سطح پر متعارف کرانے میں کوک اسٹوڈیو نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان مصنف رحیم بخش ساگر نے ’وائس آف امریکہ‘ سے مائی ڈاھی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ’مائی ڈاھی لوک گلوکارہ ’مائی بھاگی‘ اور ’مائی اللہ وسائی‘ کا تسلسل ہیں۔ وہ سندھی کلاسیکی موسیقی کی اکیلی منفرد گلوکارہ ہیں جو امریکہ سے اسلام آباد تک یکساں مقبول ہیں۔‘
مائی ڈاھی کا جو گانا ان دنوں سب سے زیادہ مقبول ہو رہا ہے وہ ہے ’کڑی آؤ نہ رسیلہ مارے دیس جو ول تمہاری بات گھنی“ ہے۔ یہ گانا انہوں نے عاطف اسلم کے ساتھ مل کر گایا ہے اور اس مصرے کے معنی ہیں ۔۔’کبھی میرے دیس آؤ رے رسیلے بلما، میں شدت سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں‘
کچھ دلچسپ پہلو
مائی ڈاھی کی رسیلی آواز کے ساتھ ساتھ ان سے جڑی کچھ اور باتیں بھی وی او اے کے قارئین کے لئے نہایت دلچسپی کا باعث ہوں گی جیسے مائی ڈاھی کی عمر ۔۔جو 65سال ہے۔ وہ سندھ کے ضلع عمرکوٹ کی پیدائشی ہیں۔ عموماً اس عمر کو پہنچتے پہنچتے اکثر فنکار اپنا فن یا تو بھول چکے ہوتے ہیں یا پھر دانستہ فن سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن، مائی ڈاھی 65سال کی عمر میں بھی اپنا فن اسی تندہی سے جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی ابتدا انہوں نے سات سال کی عمر میں کی تھی۔
وہ صرف سات سال کی تھیں کہ اسی وقت سے اپنی والدہ ’کھنڈ بائی‘ سے سروں اور سنگیت کی زبان سیکھنے لگی تھیں۔ آج وہ اس فن میں یکتا ہیں۔
مائی ڈاھی زیادہ تر نجی محفلوں میں اپنا فن پیش کرتی آئی ہیں۔ سنہ 2001 میں ان کا پہلا البم ریلیز ہوا تھا جو 20 گانوں پر مشتمل تھا اور اس میں سندھی کے علاوہ ہندکو، ڈھاٹی، اور تھری زبانوں کے گانے شامل تھے جو سب کے سب مقبول عام ہوئے۔
ان کے دیر سے عوام کے سامنے آنے کی ایک بڑی وجہ سندھ کا برادری سسٹم ہے۔ بقول ساگر، ’مائی ڈاھی 50 سال تک دیواروں اور آئینوں کے سامنے گاتی رہی۔ لیکن، برادری کی وجہ سے کبھی اپنے سروں کو ہواؤں میں نہیں چھیڑا۔‘
ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جن میں سے تین بیٹیاں ان کے ’مائی ڈاھی بینڈ‘ میں پرفارم کرتی ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا محرم فقیر ہے جو ان کے بینڈ میں ڈھولک بجاتا ہے، جبکہ دوسرا بیٹا نیاز سندھ کے کلاسیکل سازوں میں شمار ہونے والی، ’چپڑی‘ کا ماہر ہے۔
انہوں نے سندھ کے نامور صوفی بینڈ ’دی اسکیچز‘کے ساتھ بھی گانے گائے۔ بینڈ کے روح رواں سیف سمیجو تھے اور انہوں نے ہی مائی ڈاھی کو ’کو ک اسٹوڈیو‘ کی راہ دکھائی تھی۔
مائی ڈاھی نے رواں سال مارچ میں امریکہ کا دورہ کیا اور نیویارک و آسٹن جیسے بڑے شہروں میں پرفارم کیا۔ ملکی سطح پر وہ لاہور، اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد اور عمرکوٹ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرچکی ہیں۔ وہ اب تک پانچ درجن سے زیادہ گانے ریکارڈ کرا چکی ہیں جبکہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔