رسائی کے لنکس

ملالہ کی حالت اطمینان بخش


ملالہ یوسف زئی (فائل فوٹو)
ملالہ یوسف زئی (فائل فوٹو)

پاکستانی فوج کے ترجمان نے بتایا کہ ملالہ کی حالت کے لیے آئندہ 36 سے 48 گھنٹے اہم ہیں اور ڈاکٹروں کا ایک خصوصی بورڈ صورت حال پر نظر اور مسلسل مشاورت جاری رکھے گا۔

پاکستان میں ڈاکٹروں نے ایک فوجی اسپتال میں زیرعلاج لڑکیوں کے حقوق کی علمبردارچودہ سالہ ملالہ یوسف زئی کی حالت ’’اطمینان بخش‘‘ بتاتے ہوئےاگے 36 سے 48 گھنٹوں کو نہایت اہم قرار دیاہے۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے جمعہ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ڈاکٹروں کی ہدایت پرایک روز قبل ملالہ کو بذریعہ ہیلی کاپٹر پشاور سے راولپنڈی کے ’اے ایف آئی سی‘ اسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں منتقل کیا گیا جو ایک مشکل مرحلہ تھا مگر کامیابی سے مکمل ہوا۔

’’تمام میڈیکل ٹیسٹ اور انوسٹیگیشنز ازسرِ نو کی گئیں...اب صورت حال یہ ہے کہ نیورو سرجیکل اسپیشلسٹ اورانٹینسو کیئر(انتہائی نگہداشت) اسپیشلسٹ کے مطابق ملالہ کی حالت اطمینان بخش ہے۔ لیکن اگلے 36 سے 48 گھنٹے نہایت اہم ہیں۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کا خصوصی بورڈ اس دوران مسلسل مشاورت جاری رکھے گا اور صورت حال کو دیکھتا رہے گا۔ ’’ہم قوم کو ملالہ کی صحت کے بارے میں باخبر رکھیں گے۔‘‘

جنرل باجوہ نے کہا کہ ’ونٹیلیٹر‘ یا مصنوعی نظام تنفس کے سہارے ملالہ کو بے ہوش رکھ کراُس کا مسلسل مشاہدہ کیا جارہا ہے، جبکہ ڈاکٹروں کے مطابق ان کا بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن بھی نارمل ہے۔


ملالہ کو راولپنڈی کے فوجی اسپتال میں منتقل کیا جارہا ہے
ملالہ کو راولپنڈی کے فوجی اسپتال میں منتقل کیا جارہا ہے
اُنھوں نے بتایا کہ گولی سر میں داخل ہونے کے بعد ملالہ کی ریڑھ کی ہڈی کے جانب گردن میں چلی گئی تھی لیکن فوجی ترجمان کے بقول سر کی چوٹ کے بارے میں اس مرحلے پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ سر میں گولی لگنے سے ملالہ کے دماغ میں سوجن ہوگئی ہے مگر یہ حالت کس حد تک تشویشناک ہے اس بارے میں خیال آرائی کو ڈاکٹروں نے قبل از وقت قرار دیا ہے۔


انھوں نے کہا کہ پاکستان کے ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹرز ملالہ کا علاج کررہے ہیں جب کہ دو غیر ملکی طبی ماہرین سے بھی مشاورت کی گئی ہے، لیکن ترجمان نے کہا کہ فی الحال لڑکی کو بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔

ملک بھر میں نمازجمعہ کے بعد مساجد اوراسکولوں میں ملالہ یوسف زئی کی جلد صحت یابی کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔

سوات سے تعلق رکھنے والی اس نو عمر بچی کی وجہ شہرت لڑکیوں کو تعلیم دینے کے حق میں اور شدت پسندی کے خلاف اُس کی وہ جرات مندانہ مہم ہے، جو تین سال قبل وادی پر شدت پسندوں کے قبضے کے دوران اُس نے فرضی نام سے برطانوی نشریاتی ادارے کی اُردو سروس کے ذریعے چلائی تھی۔

ملالہ پر سوات کے انتظامی مرکز مینگورہ میں منگل کو اُس وقت گولی چلائی گئی جب وہ اسکول وین میں دیگر ساتھیوں کے ہمرا گھر واپس جارہی تھی۔

طالبان نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے زندہ بچ جانے کی صورت میں اُس پر دوبارہ قاتلانہ حملے کی دھمکی بھی دی ہے۔

سوات پولیس نے جمعہ کو فائرنگ کے اس واقعے میں مبینہ طور پر کردار ادا کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا مگر اس ضمن میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

اس حملے پر پاکستان بھر میں ہر طبقہ فکر کی طرف سے شدید مذمت اور غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔


ملالہ کے حق میں مظاہرہ
ملالہ کے حق میں مظاہرہ
ملک کے بعض حصوں میں طالبان مخالف مظاہرے کیے گئے ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل سے منسلک پچاس سے زائد جید علما اور مفتی صاحبان نے ملالہ پر حملے کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ اورعالمی رہنماؤں کی طرف سے بھی طالبان کی اس کارروائی کو غیر انسانی اور وحشیانہ فعل قرار دے کرسخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔

ملالہ پرحملے کے بعد پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف موثر اقدامات کرنے کے مطالبات میں تیزی آگئی ہے۔

اُدھر وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اس قاتلانہ حملے کو پاکستانی قوم کے لیے ایک ’انتباہ‘ قرار دیا ہے۔

امریکی ٹی وی چینل ’سی این این‘ کو دیے گئے انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ ’’اپنے نظریات دوسروں پر تھونپنے کے لیے تشدد کی راہ منتخب ‘‘ کرنے والوں کا پاکستان اور دنیا بھر کے لوگوں کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔
XS
SM
MD
LG