ملائیشیا کے حکام نے ان اطلاعات کو مسترد کر دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ لاپتہ مسافر طیارے سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد بھی طیارے نے کئی گھنٹوں تک اپنی پرواز جاری رکھی۔
عہدیداروں کا مزید کہنا تھا کہ چین نے سیٹلائیٹ کے ذریعے طیارے کے ممکنہ ملبے سے متعلق جس مقام کی نشاندہی کی تھی وہاں سے بھی کوئی چیز نہیں ملی۔
ملائیشیا کے ٹرانسپورٹ کے وزیر حشام الدین نے جمعرات کو کہا کہ انھوں نے ملائیشین ائیر لائینز کا طیارہ بنانے والی کمپنوں بوئنگ اور رولز رایئس سے کہا ہے کہ اگر ان کے پاس اس حوالے سے مصدقہ معلومات ہیں تو ان کو اس بارے میں آگا ہ کیا جائے کہ طیارے نے چار گھنٹوں کے دوران اضافی 4000 کلومیڑ فضائی فاصلہ طے کیا۔
اس سے قبل ایک امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جنرل‘ نے جمعرات کو اپنی ایک خبر میں امریکی تحقیقات کاروں کے حوالے سے کہا ہے کہ لاپتا طیارہ رابطہ منقطع ہونے کے بعد بھی چار گھنٹے تک فضا میں ہی رہا۔
رپورٹ میں کہا کہ ان معلومات کی بنیاد خود کار نظام کے تحت جہاز کے انجن کے ذریعے زمین پر بھیجے جانے والے سگنل ہیں۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جہاز نے مزید چار ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔
اُدھر ملائیشیا اور ویتنام کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ لاپتا مسافر جہاز کے تاحال کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ چین نے سیٹلائیٹ کے ذریعے طیارے کے ممکنہ ملبے سے متعلق جس مقام کی نشاندہی کی تھی وہاں سے بھی کوئی چیز نہیں ملی۔
دونوں ملکوں نے لاپتا جہاز کی تلاش کے لیے جمعرات کو ’ساؤتھ چائنہ سی‘ میں اپنے جہاز بھیجے لیکن وہاں سے کچھ نہیں ملا۔
ملائیشیا کے سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر اظہرالدین عبد الرحمٰن نے کہا کہ ’’ہم وہاں گئے لیکن لاپتا جہاز کے کوئی آثار نہیں ملے۔‘‘
چین نے بدھ کو سیٹلائیٹ سے لی گئی کچھ تصاویر جاری کی ہیں جن میں بظاہر ملبے کا ایک بڑا حصہ تیرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ’’ممکنہ طور‘‘ پر لاپتا ہونے والے طیارے کا ملبہ ہو سکتا ہے۔
بارہ ممالک کے جہاز اور کشتیاں 93 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے میں جہاز کی تلاش میں مصروف ہیں۔
گزشتہ ہفتے کو یہ جہاز کوالالمپور سے بیجنگ جاتے ہوئے لاپتا ہو گیا تھا اور اُس پر کل 239 افراد سوار تھے۔
عہدیداروں کا مزید کہنا تھا کہ چین نے سیٹلائیٹ کے ذریعے طیارے کے ممکنہ ملبے سے متعلق جس مقام کی نشاندہی کی تھی وہاں سے بھی کوئی چیز نہیں ملی۔
ملائیشیا کے ٹرانسپورٹ کے وزیر حشام الدین نے جمعرات کو کہا کہ انھوں نے ملائیشین ائیر لائینز کا طیارہ بنانے والی کمپنوں بوئنگ اور رولز رایئس سے کہا ہے کہ اگر ان کے پاس اس حوالے سے مصدقہ معلومات ہیں تو ان کو اس بارے میں آگا ہ کیا جائے کہ طیارے نے چار گھنٹوں کے دوران اضافی 4000 کلومیڑ فضائی فاصلہ طے کیا۔
اس سے قبل ایک امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جنرل‘ نے جمعرات کو اپنی ایک خبر میں امریکی تحقیقات کاروں کے حوالے سے کہا ہے کہ لاپتا طیارہ رابطہ منقطع ہونے کے بعد بھی چار گھنٹے تک فضا میں ہی رہا۔
رپورٹ میں کہا کہ ان معلومات کی بنیاد خود کار نظام کے تحت جہاز کے انجن کے ذریعے زمین پر بھیجے جانے والے سگنل ہیں۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جہاز نے مزید چار ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔
اُدھر ملائیشیا اور ویتنام کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ لاپتا مسافر جہاز کے تاحال کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ چین نے سیٹلائیٹ کے ذریعے طیارے کے ممکنہ ملبے سے متعلق جس مقام کی نشاندہی کی تھی وہاں سے بھی کوئی چیز نہیں ملی۔
دونوں ملکوں نے لاپتا جہاز کی تلاش کے لیے جمعرات کو ’ساؤتھ چائنہ سی‘ میں اپنے جہاز بھیجے لیکن وہاں سے کچھ نہیں ملا۔
ملائیشیا کے سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر اظہرالدین عبد الرحمٰن نے کہا کہ ’’ہم وہاں گئے لیکن لاپتا جہاز کے کوئی آثار نہیں ملے۔‘‘
چین نے بدھ کو سیٹلائیٹ سے لی گئی کچھ تصاویر جاری کی ہیں جن میں بظاہر ملبے کا ایک بڑا حصہ تیرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ’’ممکنہ طور‘‘ پر لاپتا ہونے والے طیارے کا ملبہ ہو سکتا ہے۔
بارہ ممالک کے جہاز اور کشتیاں 93 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے میں جہاز کی تلاش میں مصروف ہیں۔
گزشتہ ہفتے کو یہ جہاز کوالالمپور سے بیجنگ جاتے ہوئے لاپتا ہو گیا تھا اور اُس پر کل 239 افراد سوار تھے۔