مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید کو سنائی جانے والی 13 سال قید کی سزا پر امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس سلسلے میں، محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران، ’فوجداری ضابطوں کی پاسداری کو یقینی نہیں بنایا گیا‘۔
جین ساکی نے کہا ہے کہ امریکہ کو خاص طور پر اِن اطلاعات پر دکھ ہوا ہے کہ مقدمہ اِس طریقے سےچلایا گیا جس سے مالدیپ کے قانون اور مالدیپ کی جانب سے بین الاقوامی فرائض کی انجام دہی کی خلاف ورزی کی گئی، جن ضمانتوں اور قوائد کا مقصد منصفانہ سماعت فراہم کرنا تھا، جو شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کی روح کے خلاف ہیں۔
بیان میں سابق صدر نشید کے خلاف چلائے گئے مقدمے کی پہلی ہی سماعت کے دوران اُنھیں قانونی مدد کی عدم دستیابی اور ججوں کی جانب سے فرائض کی آزادانہ اور منصفانہ انجام دہی کو یقینی نہ بنایا گیا۔
ترجمان نے مالدیپ کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ اپنی وابستگی ثابت کرے۔۔۔ جس میں منصفانہ عدل فراہم کرنا اور اس کی قابل اعتماد بحالی کو یقینی بنانے کا اقدام کیا جائے؛ اور یہ کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے آزادی اظہار اور صحافتی آزادی کی حرمت کے ساتھ ساتھ ساتھ، پُرامن اجتماع اور احتجاج کے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا جائے۔
محکمہٴخارجہ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سابق صدر نشید کی حفاظت اور خیر و عافیت کو یقینی بنائے، اور اِس امید کا اظہار کیا کہ مالدیپ کے تمام لوگوں کو اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا موقع فراہم کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق، محمد نشید پر الزام تھا کہ اُنھوں نے اپنے دور اقتدار کے دوران 2012ء میں ایک جج احمد محمد کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ محمد نشید ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اُنھوں نے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے تھے، جن کی پاداش میں اُنھیں اقتدار سے الگ کیا گیا۔