وسطی امریکہ اور غرب الہند کے ممالک میں پایا جانے والا منچی نیل کا درخت دنیا کا خطرناک ترین درخت مانا جاتا ہے۔ اس درخت کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ میکسیکو میں اسے موت کے درخت سے پکارا جاتا ہے تو کیربئین کے جزائر میں اسے بیچ ایپل، یعنی ساحلی سیب کہا جاتا ہے۔
اس درخت کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے 2011 میں دنیا کا خطرناک ترین درخت قرار دیا تھا۔ اس حوالے سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس درخت کے بارے میں لکھا گیا کہ اس درخت کی گوند میں اس قدر تیزابیت ہے کہ اس کے چھونے سے جلد پر چھالے پڑ جاتے ہیں۔
اس درخت کا پھل میٹھا اور دکھنے میں ہرے سیب کی طرح لگتا ہے۔ گنیز میں اس پھل کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس کے کھانے سے منہ اور گلے میں شدید چھالے اور درد پیدا ہوتا ہے جب کہ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
برٹش میڈیکل جرنل رسالے کو لکھے گئے ایک خط میں ریڈیالوجسٹ نکولا ایچ سٹرائکلینڈ نے اس پھل کو غلطی سے کھانے کا اپنا تلخ تجربہ بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 1999 میں وہ غرب الہند کے جزیرے ٹوباگو کے ساحل پر ایک دوست کے ساتھ گھوم رہی تھیں کہ انہیں کچھ آموں اور ناریلوں کے ساتھ ہرے رنگ کا پھل بھی بکھرا پڑا ملا۔ انہوں نے اور ان کے دوست نے یہ پھل کھا لیا۔ نکولا کے مطابق ذائقے میں یہ پھل میٹھا اور خوشبودار تھا۔ لیکن اس کے چند ہی لمحوں بعد اس کا اثر شروع ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں کو شدید جلن، اور حلق کے بند ہونے کا احساس شروع ہوگیا اور چند گھنٹوں تک یہ جلن شدید درد میں تبدیل ہوگئی اور علامات آٹھ گھنٹوں تک جاری رہیں۔
جرنل آف ٹریول میڈیسن نے بھی 2011 میں رپورٹ کیا کہ شمالی امریکہ کے کچھ طلبا نے کیریبئین میں بارش سے بچنے کے لیے اس درخت کے نیچے پناہ لینے کی غلطی کی تھی۔ ان طلبا نے جلد اور آنکھوں میں جلن کی شکایت کی تھی۔
کیمیکل پیتھالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے والی مشیل مسکت نے لائیبریری آف میڈیسن کے جرنل میں لکھتے ہوئے بتایا کہ اس درخت کو آگ لگانے سے زہریلا دھواں پیدا ہوتا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے لکھا ک یہ دھواں اگر کسی کی آنکھوں تک پہنچے تو اندھے ہونے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔
آخر منچی نیل اس قدر زہریلا کیوں ہے؟
اپنی کتاب فلوریڈا اور کیریبئین کے زہریلے چرند پرند میں ڈیوڈ نیلیس لکھتے ہیں کہ اس درخت میں ہپومینین اے اور بی نامی دو زہریلے مادے پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں پائے جانے والے کچھ مادے کارسوجینک بھی ہوسکتے ہیں اور جلد میں کچھ عرصے کے لیے ٹیومر بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس درخت میں ایک اور زیریلا مادہ فوربول پایا جاتا ہے۔ اس مادے کو بھی امریکہ کی سانٹا کروز بائیوٹیکنالوجی انتہائی ضرررساں زیریلا مادہ قرار دیتی ہے جس سے جلد پر چھالے اور نگلنے کی صورت میں سوجن کی وجہ سے ہوا کی نالی بند ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
منچی نیل آخر کس کام کا ہے؟
درختوں سے متعلق ویب سائٹ ٹری ہگر اس درخت کے فوائد بتاتے ہوئے لکھتی ہے کہ اس درخت پر بہت سے ایسے حیوانات بسیرا کرتے ہیں جن پر اس کا زہر اثر نہیں کرتا۔ ان میں درختی چھپکلی، جسے گوہ بھی پکارا جاتا ہے شامل ہے۔ اس کی جلد پر منچی نیل کا اثر نہیں ہوتا بلکہ گوہ کو منچی نیل کا پھل کھاتے بھی دیکھا گیا ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق اس درخت کے چند فوائد میں سے ایک اس کا ساحل پر زمینی کٹاؤ روکنے کے کام آنا ہے جب کہ یہ سمندری طوفان کے دوران ہوا کو روکنے کے کام بھی آتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے فرنیچر بنانے کے کام بھی لایا جاتا ہے۔
تاریخ میں منچی نیل کا ذکر
امریکی ریاست فلوریڈا کے عظیم دلدلی علاقے ایورگلیڈز پر لکھی گئی اپنی کتاب ’’دی سوامپ‘‘ میں امریکی صحافی مائیکل گلیڈن نے فلوریڈا میں یورپی حملہ آوروں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ خوان پونسی ڈی لے اون نامی ادھیڑ عمر ہسپانوی کونکوئسٹیڈور کا ذکر کیا ہے۔ مائیکل کے مطابق پونسی فلوریڈا پر حملہ آور ہونے والا پہلا یورپی کمانڈر تھا اور اس نے ہی اس علاقے کا نام فلوریڈا رکھا۔ مائیکل لکھتا ہے کہ بحر اوقیانوس کے ساحل کیپ کنائیول کے پاس اتر کر پونسی نے آبنائے کا سفر کیا اور خلیج کے قریب ساحل شارلوٹ ہاربر پہنچا۔ یہاں اسے مقامی کالوسا آبادی کا پیغام رساں ملا۔ مائیکل نے لکھا کہ اگرچہ اس پیغام رساں نے اسے سونے اور تجارت کا وعدہ کیا لیکن جلد ہی چند کالوسا جنگجوؤں نے اس پر حملہ کیا۔ ہسپانوی جنگجوؤں نے اگرچہ ان کا مقابلہ کیا لیکن کالوسا نے امن کا وعدہ کر کے دوبارہ ان پر حملہ کر دیا۔
پونسی اس علاقے میں آٹھ برس بعد دو سو جنگجوؤں کے ساتھ دوبارہ واپس آیا لیکن اس دفعہ بھی اس پر کالوسا آبادی نے حملہ کردیا۔ کالوسا آبادی کے جنگجوؤں نے ایورگلیڈز کے دلدلی علاقے میں پائے جانے والے منچی نیل درخت کی زہریلی گوند میں ڈبوئے ہوئے تیروں سے پونسے پر حملہ کر دیا۔ اس دوران وہ ان تیروں سے زخمی ہوا اور کیوبا کے علاقے ہوانا میں فرار ہوگیا لیکن جلد ہی اپنی زخموں کی تاب نہ لاتے ہلاک ہوگیا۔