جنوبی ایشیائی باشندےاپنے ملکوں میں علی الصبح ٹھیلے والے کی ایک مانوس پکار سننے کے عادی تھے۔ "بھنڈی لے لو، کریلہ لے لو، ہری ہری مرچ اور لا ل ٹماٹر لےلو"۔پھر گزشتہ دہائی میں ایک تبدیلی آئی، ٹھیلے کے آگے موٹر سائیکل لگ گئی اور سبزی بھونپو کے ذریعے بیچی جانے لگی لیکن گاہک اور دکاندار کا رشتہ وہی رہا۔وہی بک جھک، وہی چھٹا نہ ہونے کا جھگڑا ۔ لیکن گزشتہ برس بھارت کے دیہات میں ایک انقلابی تبدیلی آئی ہے۔
آپ کو لے چلتے ہیں بھارت کی شمالی ریاست ہماچل پردیش کے ایک گاؤں بنوری میں۔ جہاں خریداری کے لیے ادائیگی کرنے کے طریقے میں ڈرامائی تبدیلی نظر آئے گی۔ چاہے چھوٹا سا گروسری اسٹور ہو یا سڑک کنارے کھڑا ٹھیلا۔ حتیٰ کہ ٹوکری میں رکھے اچار، پاپڑ اور مٹی کے کھلونےخریدنے والے بھی نقد رقم لینے کے بجائے ایک سادہ سسٹم استعمال کرتے ہیں جس میں آن لائن ادائیگی کرنے کے لیے اسمارٹ فون پر محض کوڈ اسکین کرنا ہوتا ہے۔
بنوری میں سبزی فروش نشانت شرما نے گاہک کو آدھا کلو گو ام گوبھی فروخت کرنے کے بعد ڈیجیٹل طریقے سے رقم وصول کی۔نشانت نے بتایا کہ وہ چھوٹا لین دین کرتے ہیں اور نقد رقم کو سنبھالنے سے کہیں زیادہ آسان یہ طریقہ ہے۔
حالیہ برسوں میں 'ڈیجیٹل انڈیا' کے نام سے بھارتی حکومت کے ایک اقدام نے کروڑوں لوگوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز میں شامل ہونے میں مدد کی ہے۔ چوں کہ انٹرنیٹ کی رسائی اب دور دراز علاقوں تک پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے ڈیجیٹل طریقۂ ادائیگی کا مقبول نظام دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں لین دین کے طریقے کو تبدیل کر رہا ہے۔
ہندوستان کی 1.4 ارب آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے جہاں چمک دار شہروں کے چمکتے دمکتے اسٹورز کی طرح گلیوں کے دکانداروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے کھوکھوں تک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کانظام استعمال کر کیا جا رہا ہے۔ دکان دار کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کے بجائے ہندوستان کا یونیفائیڈ پیمنٹ انٹرفیس استعمال کرتے ہیں جسے UPI کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کے کوڈ کو اسمارٹ فون پر اسکین کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ادائیگیوں سے لین دین کو آسان بنا کر کاروبار کو فروغ ملتا ہے۔ چھوٹے شہر اور گاؤں کے باشندے، خاص طور پر نوجوان صارفین بھی جیب میں پیسے ڈالے بغیر خریداری کے فوائد کو دریافت کر رہے ہیں۔
پالم پور کے ایک رہائشی وکاس شرما نے کہا "پہلے جب میں کسی بھیڑ والی جگہ پر جاتا تھا، مجھے اپنا بٹوہ چوری ہونے کی فکرہوتی تھی۔ اب مجھے صرف اپنے فون کی ضرورت ہے۔"
یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں دکان داروں کو کوئی فیس نہیں دینی پڑتی اور اسے بینک اکاؤنٹ میں فوری طور پرمنتقل کرنے کے لیے چھوٹے سے چھوٹے لین دین میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔معاشی ماہر ین معاشرے کی نچلی سطح پر ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافے کو مستحسن سمجھتے ہیں۔
"یہ آسان ٹیکنالوجی اور لین دین کی مجموعی لاگت میں کمی ہے جس نے اس نظام کو مقبول بنا دیا ہے۔ اس کے لیے صرف ایک بٹن کلک کرنے کی ضرورت ہے۔" یہ کہنا ہے ماہر اقتصادیات بھانومورتی کا جو بنگلورو میں امبیدکر اسکول آف اکنامکس یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ان کے بقول "یہ یقیناً ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جس نے ہمارے کاروبار کرنے کے طریقے کو بدل دیا ہے۔"
بھارت میں ڈیجیٹل ادائیگیوں سے حالیہ برسوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بینکاری نظام میں لانے میں بھی مدد ملی ہے۔ کچھ سال پہلے صرف ایک تہائی بالغوں کے مقابلے میں اب 80 فی صد سے زیادہ بالغ افراد کے بینک اکاؤنٹس ہیں۔ سستے اسمارٹ فونز جن کی قیمت 50 امریکی ڈالرز سے بھی کم ہے تقریباً 75 کروڑ لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔
کووڈ کی وبا کے دوران جب نقد لین دین کی حوصلہ شکنی کی گئی، اس نے بھی بہت سے لوگوں کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف جانے پر راغب کیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے پندرہ اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 'ڈیجیٹل انڈیا موومنٹ' ہندوستان اور عام آدمی کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ دنیا کا 40 فی صد ریئل ٹائم ڈیجیٹل لین دین اب بھارت میں ہوتا ہے۔
چاہے بڑے قصبوں میں، شہروں میں، یا چھوٹے دیہاتوں میں، ہندوستان کے ریٹیل سیکٹر پر لاکھوں چھوٹے اسٹورز اور دکانوں کا غلبہ ہے، جو کئی دہائیوں سے صرف نقدی میں کاروبار کرتے تھے۔
جس رفتار اور پیمانے کے ساتھ لوگ ادائیگی کے نئے نظام کو اپنا رہے ہیں وہ بنوری گاؤں میں واضح ہے۔ ایک کیمسٹ شاپ کے مالک اکھلیش شرما نے کہا کہ ان کے تقریباً 70 فی صد صارفین آن لائن ادائیگی کرتے ہیں۔ جس نے ان کی زندگی کو آسان کر دیا ہے۔
شرما کہتے ہیں، "جب بھی میں PhonePe یا Google Pay ایپ کھولتا ہوں، تمام لین دین میرے کاروباری اکاؤنٹ میں موجود ہوتا ہے۔پرانے طریقے میں مجھے دن کے اختتام پر پیسے گننے پڑتے تھے، پھر بینک جا کر نقد رقم اکاؤنٹ میں جمع کرنا پڑتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔"
ڈیجیٹل لین دین ان فوائد میں سے صرف ایک ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں تک پہنچا ہے۔صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے بھارت میں انٹرنیٹ کی رفتار ایک چیلنج بن سکتی ہے۔ خاص طور پر دیہات اور چھوٹے شہروں میں۔
اگرچہ پچھلے پانچ برس میں انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والوں کی تعداد دوگنی ہو کر تقریباً 70کروڑ ہو گئی ہے۔ لیکن کروڑوں لوگ اب بھی اس سے محروم ہیں۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ ہندوستان کے ڈیجیٹل "فٹ پرنٹ" کو پھیلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔