پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹیوں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مندر کے لیے ہندو برادری کو جگہ فراہم کرے۔
اسلام آباد میں ہندو برادری کے لگ بھگ 500 افراد مقیم ہیں لیکن یہاں باقاعدہ طور پر کوئی مندر واقع نہیں۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے ساتھ ہی واقع ایک تاریخی گاؤں سید پور جو کہ اب اسلام آباد کا ہی حصہ ہے، یہاں ایک مندر تو موجود ہے لیکن اس میں مذہبی رسومات کی ادائیگی نہیں ہوتی اور یہ صرف ایک تفریح گاہ کا حصہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔
غیرمسلموں کے مقامات مقدسہ اور دیگر املاک کے نگران ادارے متروکہ وقف املاک بورڈ کے سربراہ صدیق الفارق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے عبادت گاہ کا انتظام کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔
"سید پور میں جو مندر ہے میں نے کوشش کی ہے کہ جو مقامی ہندو پنچائیت ہے اسلام آباد کی تو ان کو اگر اس مندر سے متعلق کوئی مسئلہ ہے سکیورٹی وغیرہ کے حوالے سے تو دوسری جگہ وزیراعظم صاحب سے مل کر ہم ان کو لے دیں اور وہاں مندر بن جائے۔"
وفاقی دارالحکومت میں مقیم اکثر ہندو اپنی عبادات کے لیے جڑواں شہر راولپنڈی جاتے ہیں جہاں دو قدیمی مندر واقع ہیں۔ اس برادری کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ ان کے وفات پا جانے والوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے اسلام آباد میں کوئی شمشان گھاٹ نہیں جب کہ راولپنڈی میں واقع ایک شمشان گھاٹ ہی ان کی اس ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
لیکن اس شمشان گھاٹ کے ساتھ مندر کو مبینہ طور پر مسمار کرنے کی کوشش سے نقصان پہنچا جس کی تعمیر کے لیے ہندو برادری مطالبہ کرتی آرہی ہے۔
ہندو سکھ ویلفیئر کونسل کے صدر اور ہندو برادری کے ایک سرکردہ رہنما جگموہن کمار اروڑا کہتے ہیں۔
"ہر شمشان گھاٹ کے ساتھ مندر ہوتا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ یہاں پر ایک ارتھی کو نذر آتش کرنے سے پہلے اور بعد میں جتنی مذہبی رسومات ہوتی ہیں وہ یہاں انجام دی جاتی ہیں۔ مندر کے بغیر شمشان گھاٹ ادھوری ہے۔"
متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین صدیق الفاروق نے بتایا ہے اس مسئلے کے حل کے لیے بھی اقدام کر دیے گئے ہیں۔
"اس مندر کو ہم نے بحال کر دیا ہے شمشان گھاٹ کے لیے سات لاکھ روپے کی منظوری دی ہے اس کی بحالی کے لیے کام جاری ہے۔"
ملک کے بعض دیگر حصوں سے بھی ہندو برادری کی طرف سے اپنی عبادت گاہوں سے متعلق مسائل اور شکایت سامنے آتی رہی ہیں لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ان مسائل کو حل کر کے وہ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے آئینی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے گی۔