شدت پسندوں نے شناخت کے بعد پہلے تشدد کیا اور پھر قتل کیا: پولیس حکام
بلوچستان کے پنجاب سے متصل علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے 23 مسافروں کو بسوں سے اُتار کر شناخت کے بعد قتل کر دیا۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر واقع بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے قومی شاہراہ کو ناکہ لگا کر بند کر دیا۔ یہ شاہراہ بلوچستان کو پنجاب سے ملاتی ہے۔
مقامی افراد نے اطلاع دی ہے کہ اس مقام پر مسلح افراد نے دو درجن سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو نذرِ آتش بھی کیا ہے۔
موسیٰ خیل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس دوران مسلح افراد نے پنجاب سے بلوچستان آنے والی گاڑیوں سے شہریوں کو اُتار کر شناخت کے بعد قتل کیا۔
ضلع موسیٰ خیل کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ایوب اچکزئی نے شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں 23 افراد ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے ہیں۔
ایس پی موسیٰ خیل ایوب اچکزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لاشوں اور زخمی افراد کو مقامی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔
ایوب اچکزئی کے بقول مسلح افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کو مسافر بسوں سے اتارا جب کہ باقی 17 کو کوئلے کی ٹرکوں سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انہیں فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔
موسیٰ خیل میں جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں مسلح افراد نے 16 سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔
اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کچھ ویڈیوز بھی زیرِ گردش ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئلے سے لدے ٹرکوں سمیت دیگر گاڑیوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔
قلات میں اسسٹنٹ کمشنر فائرنگ سے زخمی
ضلع قلات میں رپورٹ ہونے والے ایک واقعے میں اسسٹنٹ کمشنر فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہوئے ہیں۔
قلات میں لیویز کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے قلات میں مہلبی کے علاقے میں لیویز تھانے پر حملہ کیا تھا۔
عہدیدار کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر قلات آفتاب لاسی فائرنگ کی زد میں آ کر معمولی زخمی ہوئے ہیں۔
ان کے بقول فائرنگ کے تبادلے میں دو اہلکار بھی شدید زخمی ہوئے۔
سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز زیرِ گردش ہیں جن میں قلات میں سیکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیاں جلتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
قلات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک
ضلع قلات میں ایک مقامی قبائلی رہنما کے گھر اور ایک ہوٹل پر بھی حملے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
قلات میں انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ رات گئے جھڑپیں ہوئی ہیں۔
اس دوران لیویز کے چار اہلکار اور ایک قبائلی شخصیت سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
فائرنگ کے تبادلے میں نو افراد کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔
قلات میں لیویز کنٹرول کے ایک اعلیٰ افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قلات میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے مقامی قبائلی شخصیت کے گھر پر حملہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہیں لیویز فورس جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہوئی۔ تاہم راستے میں عسکریت پسندوں نے ناکہ لگایا ہوا تھا جہاں فائرنگ پر ان کا سیکیورٹی اہلکاروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ فائرنگ کے تبادلے میں لیویز کے چار اہلکار ہلاک ہوئے۔
لیویز اعلیٰ افسر کا دعویٰ تھا کہ قلات کی صورتِ حال اب کنٹرول میں ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں قلات میں ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دشمن ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہا ہے۔
بولان سے چھ افراد کی لاشیں برآمد
ضلع بولان میں بھی فائرنگ اور دھماکے سے چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ضلع بولان کے ایس ایس پی نے چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چار لاشیں قومی شاہراہ سے کولپور کے مقام پر ملی ہیں جب کہ دو لاشیں ایک تباہ شدہ پل کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مقتولین کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اندازہ ہو رہا ہے کہ مقتولین کو شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا گیا۔ مقتولین کی شناخت کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔