رسائی کے لنکس

ضلع کرم میں پھر فرقہ وارانہ فسادات، راکٹوں سے ایک دوسرے پر حملے


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • ضلع کرم کے مرکز پاڑہ چنار کے بعد کرم کے دوسرے بڑے شہر سدہ میں تجارتی مرکز میں فائرنگ کے تبادلے سے کشیدگی کا آغاز ہوا۔
  • کشیدگی کے دوران متعدد راک داغے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
  • لوئر کرم کے خارکلی، بالش خیل، میروکس اور سنگینی میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب سے جھڑپیں جاری ہیں۔
  • فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں سرکاری طور پر کسی قسم کا بیان یا وضاحت جاری نہیں کی گئی۔

خیبر پختونخوا کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلعے کرم میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے ہیں۔ فریقین کے درمیان جدید خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کے تبادلے میں متعدد افراد کے نشانہ بننے کی اطلاعات ہیں۔

حکام اور مقامی قبائل کے عمائدین کے مطابق ضلع کرم کے مرکز پاڑہ چنار کے بعد کرم کے دوسرے بڑے شہر سدہ میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ایک تجارتی مرکز میں فائرنگ کے تبادلے سے حالیہ کشیدگی کا آغاز ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کشیدگی کے دوران متعدد راکٹ بھی داغے گئے ہیں جس کے نتیجے میں مارکیٹ کے احاطے اور قریبی عمارتوں میں متعدد دکانیں تباہ ہو گئی ہیں۔

ضلع کرم میں لگ بھگ ڈیڑھ ماہ کے دوران دوسری بار فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں سرکاری طور پر کسی قسم کا بیان یا وضاحت جاری نہیں کی گئی۔

ضلعی انتظامیہ کے حکام اور پولیس افسران نے نام نہ ظاہر نہ کرنے کہ شرط پر وائس آف امریکہ کو فسادات میں کئی افراد کے نشانہ بننے کی تصدیق کی ہے۔

وائس آف امریکہ کے علیحدہ علیحدہ رابطوں میں پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی علی افضال اور سدہ کے محمد جمیل نے بھی فرقہ وارانہ فسادات میں بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق کی۔

ان کے بول اہل سنت اور اہل تشیع فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان لوئر کرم کے خارکلی، بالش خیل، میروکس اور سنگینی میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب سے جھڑپیں جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لڑائی میں بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا جا رہا ہے۔

محمد جمیل کے مطابق سدہ شہر پر وقفے وقفے سے میزائل اور مارٹر بھی داغے جا رہے ہیں۔

مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جمعے کی شام سے جاری جھڑپوں میں شدت ہفتے کی رات اس وقت آئی جب مبینہ طور پر دونوں جانب متحارب قبائل کو مختلف ذرائع سے اسلحے کے ساتھ ساتھ افرادی قوت بھی میسر آئی۔

ضلع کرم کی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران اور پولیس حکام سے وائس آف امریکہ نے متعدد بار رابطہ کرنے کی کی کوشش کی۔ تاہم فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں ان کا مؤقف حاصل نہ ہو سکا۔

افغانستان کی سرحدہ پر واقع خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کو انتہائی حساس علاقہ قرار دیا جاتا ہے جہاں گزشتہ ماہ کے آغاز میں 10 اگست کو متحارب قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑہیں معاہدے کے تحت بند ہوئی تھیں۔

اس کے بعد 20 ستمبر کو شروع ہونے والے تصادم میں جانی اور مالی نقصانات کے بارے میں متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

غیر مصدقہ اطلاعات اور مقامی قبائل کے بعض عمائدین کے دعوؤں کے مطابق فرقہ وارانہ جھڑپوں میں دونوں جانب سے متعدد افراد نشانہ بنے ہیں۔

پولیس حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ جھڑپوں میں اب تک ایک پولیس اہلکار سمیت چار افراد ہلاک ہونے ہیں۔

فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث کرم کے بیشتر علاقوں کا نہ صرف پشاور اور کوہاٹ بلکہ ملحقہ اضلاع ہنگو اور اورکزئی سے بھی رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔

صحافی علی افضل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بگن کے مقام پر پشاور پاڑا چنار روڈ ہر قسم کی امد و رفت کے لیے بند ہو چکی ہے۔

ان کے بقول سڑکوں کی بندش سے نہ صرف روز مرہ کے معاشی اور سماجی معمولات متاثر ہو رہی ہیں بلکہ اس بار کرم کے درجنوں طلبہ بھی متاثر ہوئے ہیں جو پشاور میں ایم ڈی کیٹ کا ٹیسٹ دینے گئے ہیں۔

ان کے مطابق طلبہ فسادات شروع ہونے سے پہلے پشاور ٹیسٹ کے لیے گئے تھے وہ اب پشاور میں ہی قیام پر مجبور ہیں۔

ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام کے تعاون سے قبائلی جرگہ کے امن معاہدے کے نتیجے میں کئی دنوں کے تصادم کے بعد گزشتہ ماہ 10 اگست کو فسادات ختم ہوئے تھے۔

جولائی کے تیسرے ہفتے سے اگست کے وسط تک فریقین کے درمیان جھڑپوں میں مجموعی طور پر 49 افراد ہلاک اور 190 زخمی ہوئے تھے۔

ضلع کرم کے کئی قبائل دہشت گردی کے واقعات میں اضافے اور بے امنی کی وجہ سے سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر عدم اطمینان کی وجہ سے پاڑہ چمکنی کے قبائل نے چھ جون کو امن ریلی بھی نکالی تھی۔

XS
SM
MD
LG