رسائی کے لنکس

'جے آئی ٹی' الزام ڈھونڈ رہی ہے، مریم نواز


وزیرِاعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز بدھ کو پہلی مرتبہ چھ رکنی مشترکہ ٹیم (جےآئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئیں۔

عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر شریف خاندان کے غیر ملکی اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی (جےآئی ٹی) کے سامنے پیشی کے جب مریم نواز وفاقی دارالحکومت کے ’ایچ ایٹ‘ سیکٹر میں واقع فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کی عمارت میں پہنچیں تو اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے جب کہ وفاقی دارالحکومت کے مختلف راستوں پر مریم نواز کے حق میں بڑی تعداد میں پوسٹر بھی لگے نظر آئے۔

تقریباً دو گھنٹے تک ’جے آئی ٹی‘ کے سامنے پیشی کے بعد جب مریم نواز صحافیوں سے گفتگو کے لیے آئیں تو اُن کے ہمراہ وزیراعظم کے بیٹے حسن اور حسین نواز بھی تھے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے تمام سوالات کے جوابات دیئے لیکن جب اُنھوں نے 'جے آئی ٹی' کے ارکان سے سوال کیا کہ وہ ان پر عائد الزام بتائیں تو اُن کے بقول انہیں اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملا۔

’’دنیا میں ہوتا ایسا ہے کہ پہلے الزام لگتا ہے، جے آئی ٹی اس کے بعد بنتی ہے۔ یہ شاید دنیا کی پہلی (جے آئی ٹی) ہے جو پہلے بن گئی ہے اور الزام ڈھونڈ رہی ہے کہ ان پر الزام کیا لگائیں۔‘‘

وزیرِاعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ انہیں پہلے 'ڈان لیکس' کے معاملے میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اب سپریم کورٹ کے حکم نامے میں ان کا نام نہ ہونے کے باوجود انہیں تفتیش کے لیے طلب کیا گیا۔

’’وہ قرض بھی اتار دیئے جو مجھ پر واجب نہیں بھی نہیں تھے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ بیٹی کو طلب کرکے باپ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں یقین ہے کہ وہ اور ان کا خاندان احتساب کے اس عمل سے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔

’’نواز شریف کی بیٹی کو اُس کی کمزور سمجھنے والے، نواز شریف کی بیٹی کو اُس کی طاقت پائیں گے۔‘‘

مریم نواز نے کہا کہ ان کے خاندان پر جو الزامات ہیں وہ ذاتی کاروبار سے متعلق ہیں جس کا وزیرِاعظم نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

’’ایک خاندان کے ذاتی کاروبار کا نا سوال پوچھنا بنتا ہے نا جواب دینا بنتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان کا خاندان بار بار احتساب سے گزرا ہے لیکن ان پر کبھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔

مریم نواز سے اظہارِ یکجہتی کے لیے راولپنڈی، اسلام آباد اور دیگر علاقوں سے مسلم لیگ (ن) کے سینکڑوں کارکن بھی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے قریب پہنچے۔

اس سے قبل 'جے آئی ٹی' وزیرِاعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز کو چھ بار اور حسن نواز کو تین بار طلب کرچکی ہے جب کہ وزیرِاعظم نواز شریف، ان کے سمدھی اور وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی 'جے آئی ٹی' کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے 'جے آئی ٹی' کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 60 روز کی مہلت دی ہے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے کہا ہے کہ وہ 10 جولائی کو حتمی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔

لیکن تاحال ’جے آئی ٹی‘ اس معاملے سے جڑی ایک اہم شخصیت قطر کے شہزادے حمد بن جاسم بن جبر الثانی کا بیان ریکارڈ نہیں کر سکی ہے۔

شریف خاندان اور اُن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جب تک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ نہیں کرتی اُس وقت تک اُن کے بقول تفتیش کا عمل مکمل نہیں تصور نہیں کیا جائے گا۔

لندن کے ایک مہنگے علاقے 'مے فیئر' میں وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے زیر استعمال فلیٹس کے بارے میں حسین اور حسن نواز کا موقف ہے کہ ان فلیٹس کی خریداری کے لیے رقم پاکستان سے منتقل نہیں کی گئی اور اپنے اس موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے قطر کے کے سابق وزیراعظم و وزیر خارجہ شہزادہ حمد بن جاسم بن جبر الثانی کا ایک تحریری بیان سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے حمد بن جاسم بن جبر الثانی کو بھی بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلایا تھا، لیکن اُنھوں نے پاکستان آنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جے آئی ٹی‘ قطر میں اُن کا بیان ریکارڈ کر سکتی ہے۔

حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے عہدیداروں کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے شریف خاندان کی پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بڑی تعداد میں کارکنوں کو اکٹھا کرنے کا مقصد ’جے آئی ٹی‘ اور عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے۔

تاہم مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ تحفظات کے باوجود شریف خاندان کے افراد ’جے آئی ٹی‘ کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں۔

مریم نواز سے یکجہتی کے پہنچے والی مسلم لیگ (ن) کی کارکن
مریم نواز سے یکجہتی کے پہنچے والی مسلم لیگ (ن) کی کارکن

مریم نواز کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل اکیڈمی سے کچھ فاصلے پر موجود مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں موجود رفعت عباسی پر اُمید ہیں کہ اس معاملے میں فیصلہ اُن کے حق میں آئے گا۔

حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ جس انداز میں شریف خاندان اور اُن کے حامی تحقیقاتی ٹیم پر تنقید کر رہے ہیں اس سے اس بات کی غمازی ہوتی ہے کہ حکمران خاندان کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG