|
"پاکستان دنیا بھر میں خسرہ کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں صرف سال 2023 میں جولائی سے دسمبر کے درمیان سات ہزار سے زیادہ افراد خسرہ کا شکار ہوئے تھے۔"
یہ کہنا تھا اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ کے انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی یونیورسٹی آف ابرڈین میں ایک پوسٹ گریجوایٹ ریسرچر ڈاکٹر محمد زمان خان اسیر کا جو علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں متعدی امراض کے ڈاکٹر رہ چکے ہیں.
انڈس ہاسپٹل کراچی میں بچوں کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر صبا شاہد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خسرہ کے کیسز میں غیر معمولی اضافے کی وجہ بچوں کو اس وبا کے حفاظتی ٹیکے لگوانے میں والدین کی بہت زیادہ غفلت اور کسی طبی مرکز کی بجائے گھروں میں بچوں کی پیدائش ہے، جس کی وجہ سے ان کے حفاظتی ٹیکوں کی رجسٹریشن نہیں ہو پاتی۔
خسرہ وائرس سے پھیلنے والی انتہائی متعدی بیماری ہے
ڈاکٹر صبا نے بتایا کہ خسرہ ایک انتہائی متعدی بیماری ہے جو ایک وائرس سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی متاثرہ مریض کے سانس لینے، کھانسے یا چھینکنے سے آسانی سے پھیلتی ہے۔
ڈاکٹر صبا نے کہا کہ وائرس سے پھلنے والی اس بیماری کی کوئی دوا موجود نہیں ہے۔ یہ وائرس دس دن میں خود ہی مرجاتا ہے۔
اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بچوں کو شروع ہی سے اس کے حفاظتی ٹیکے لگوا دیے جائیں۔
پاکستان میں خسرہ کے اعداد و شمار
قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ساجد نے جو وکٹوریہ اسپتال بہاولپور کے بچوں کے شعبے سے وابستہ متعدی امراض کے ایک ماہر پیں، ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے وی او اے کو بتایا کہ وہ پورے ملک کے بارے میں تو کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے لیکن پاکستان کے صوبے پنجاب میں 2024 کے پہلے سات ہفتوں تک کل مشتبہ کیسز 1334 تھے جن میں سے لیبارٹری میں 99 کیسز کی تصدیق کی گئی تھی۔ اور ان سے کوئی موت نہیں ہوئی تھی۔
جن شہروں میں یہ کیسز رپورٹ ہوئے ان میں راولپنڈی، لاہور ،جھنگ شامل تھے۔ بہاول پور میں اس سال کے پہلے سات ہفتوں تک خسرہ کے 27 کیس رپورٹ ہوئے تھے۔
جب کہ 2023 میں پاکستان کے صوبے پنجاب میں خسرہ کے مشتبہ کیسز 12470 تھے جن میں سے 3555 کی لیبارٹری سے تصدیق ہوئی تھی۔
بہاولپور میں 2023 میں خسرہ کے مشتبہ کیسز کی تعداد 272 تھی۔
کیا خسرہ صرف بچوں کی بیماری ہے ؟
قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور کے ڈاکٹر محمد ساجد نے بتایا کہ عام تاثر یہ ہے کہ یہ بیماری صرف بچوں کو ہی ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ وائرس کسی بھی عمر میں نشانہ بنا سکتا ہے، لیکن بچے اس کا زیادہ ہدف بنتے ہیں۔
کیا خسرہ جان لیوا بیماری ہے؟
ڈاکٹر ساجد نے کہا کہ خسرہ بذات خود جان لیوا نہیں ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیاں مریض کی جان لے سکتی ہیں، خاص طور پر ان میں جنہیں حفاظتی ٹیکے نہ لگے ہوں اور جن کا مدافعتی نظام یا امیون سسٹم کمزور ہو اور جو غذائیت کی قلت کا شکار ہوں۔
علامات اور مراحل:
ڈاکٹر ساجد نے بتایا کہ یہ بیماری یکایک پیدا نہیں ہوتی اور شدت پکڑنے تک مریض تین مرحلوں سے گزرتا ہے۔ ہر مرحلے کی علامات اور دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔
پہلا مرحلہ:
پہلے مرحلے میں جو عام طور پر دو سے پانچ دن پر محیط ہوتا ہے، مریض میں بخار، کھانسی، اور آنکھوں میں سرخی(conjunctivitis ) اور فلو کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
دوسرا مرحلہ:
دوسرے مرحلے میں جسم پر سرخ دھبے یا ریشز نمودار ہوتے ہیں۔ یہ چہرے سے شروع ہوتے ہیں پھر نیچے چھاتی اور پیٹ اور پھر نچلے دھڑ تک پھیل جاتے ہیں۔ ریشز ظاہر ہونے پر بخار کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ یہ مرحلہ تین سے پانچ دن تک رہتا ہے۔
اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر صبا نے کہا کہ ریشز سب سے پہلے کان کے پیچھے نمودار ہوتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ:
تیسرے مرحلے میں یا تو یہ سب علامات ختم ہو جاتی ہیں یا پیچیدگیاں واقع ہو جاتی ہیں۔
پیچیدگیاں:
ڈاکٹر ساجد نے کہا کہ سب سے عام پیچیدگی، اسہال ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیچیددگیوں یا اموات کا شکار عام طور پر وہ ہوتے ہیں جنہیں حفاظتی ٹیکے نہیں لگے ہوتے اور جو غذائی قلت کا شکار ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نمونیہ اور سانس کے مسائل اور دماغ کی سوزش (encephalitis ) جیسی اعصابی پیچیدگیاں اس بیماری کی سب سے زیادہ خطرناک پیچیدگیوں میں شامل ہوتی ہیں۔
دوسری پیچیدگیوں میں نابینا پن یا کان کے انفیکشنز شامل ہیں۔
ڈاکٹر صبا نے کہا کہ جن بچوں میں ٹی بی کے جراثیم چھپے ہوئے ہوں, اس بیماری کے بعد ان میں کچھ عرصے کے بعد ٹی بی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
بچاؤ اور علاج: حفاظتی ٹیکے
والدین کیا کریں؟
ڈاکٹر محمد زمان اسیر کا کہنا تھا کہ خسرہ سے بچاؤ اور علاج کا واحد طریقہ حفاظتی ٹیکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا پہلا حفاظتی ٹیکہ بارہ سے پندرہ ماہ کی عمر میں اور دوسرا چار سے پانچ سال کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کیوں کہ یہ مرض ہر وقت اور بہت زیادہ موجود ہے اس لیے پہلا ٹیکہ نو ماہ کی عمر میں، دوسرا ایک سال اور تیسرا چار سے پانچ سال کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر والدین اپنے بچوں کو یہ ٹیکا دو سال کی عمر تک نہ لگوا سکیں تو اپنے گھر کے قریب کسی بھی سرکاری ای پی ٹی مرکز پر بچے کو لے جا کر اس کا کورس مکمل کروا سکتے ہیں۔
دوسرے بچوں کو مریض بچے سے بچائیں
ڈاکٹر زمان نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ جوں ہی کسی بچے کو بخار اور ریشز پڑنا شروع ہوں، وہ فوری طور پر اسے گھر کے دوسرے بچوں سے الگ کر دیں تاکہ انہیں یہ بیماری نہ لگے۔ اور ان کے امیون سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے صحت بخش غذا فراہم کریں۔
اس مضمون کی دوسری قسظ آئندہ ہفتے پڑھئے گا۔
فورم