پاکستان کے صوبے سندھ میں حکام پولیو کے خاتمے کے لیے ایک نئے متنازع طریقے پر غور کر رہے ہیں اور وہ ہے جیل کی سزا ۔ گزشتہ ماہ سندھ حکومت نے ایک بل متعارف کرایا تھا جس کے تحت ان والدین کو ایک ماہ تک کی جیل کی سزا ہو سکے گی جو اپنے بچوں کو پولیو یا آٹھ دوسری عام بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائیں گے۔
یہ بل اس وقت قانون بننے کے آخری مراحل میں ہے اور صوبائی اسمبلی کی جانب سے منظوری کے بعد قانون بن جائے گا۔ اس کے تحت اپنے بچوں کو مخصوص بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے والے والدین کو ایک ماہ تک کی جیل اور 50 ہزار روپے جرمانہ بھی ہو سکتا ہے ۔
جنوری میں پاکستان میں 62 ہزار والدین نے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق صوبے سندھ سے تھا ، اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے سے انکار کر دیا تھاجس کے نتیجے میں حکام کو سزا کا نیا قانون تجویز کرنا پڑا۔
عالمی ادارہ صحت اور دوسرے مقامات پر ماہرین کو فکر ہے کہ یہ غیر معمولی حکمت عملی پولیو ویکسین پر اعتماد کو مزید متاثر کر سکتی ہے خاص طو ر پر ایک ایسے ملک میں جہاں بہت سے لوگ غلط قسم کے شکو ک و شبہات کا شکار ہیں اور جہاں درجنوں ویکسی نیٹرز کو گولی کا نشانہ بنایا اور ہلاک کیا گیا۔
لوگوں کو ویکسین کے محفوظ ہونے پر قائل کرنے والے ماہرین کو درپیش مسائل میں اس لیے بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان اور اس کا پڑوسی ملک افغانستان صرف ایسے ملک ہیں جہاں پولیو کا پھیلاؤ کبھی نہیں رکا۔ یہ بیماری جو ممکنہ طور پر جاں لیوا اور مفلوج کردیتی ہے ، زیادہ تر پانچ سال تک کے بچوں پر حملہ آور ہوتی ہے اور روایتی طور پر آلودہ پانی پینے سے پھیلتی ہے ۔
اس سال اب تک اس وائرس کی وجہ سے پولیو کے سات کیسز سامنے آئے ہیں جو سب کے سب پاکستان اور افغانستان میں رونما ہوئے ۔ اسی دوران تین بر اعظموں کے 21 ملکوں میں 270 سے زیادہ ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جو ایک ایسے وائرس سے پیدا ہوئے جنہیں ویکسین سے منسلک کیا گیا ہے ۔
ڈبلیو ایچ او کے مشرقی میڈیٹرینین میں پولیو سے متعلق ڈائریکٹر ڈاکٹر حامد جعفری نے خبردار کیا ہے کہ نیا قانون اصلا ح کی بجائے الٹا نقصان دے گا۔ اس سے ویکسین کے محفوظ ہونے کے بارے میں لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرنے والے ماہرین کو درپیش مسائل مزید بڑھ جائیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ صحت کے کارکن روایتی طور پر ان علاقوں میں جہاں حفاظتی ٹیکے لگوانے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا جاتا تھا، وہاں لوگوں کے خدشات دور کر کے حفاظتی ٹیکے لگوانے کی شرح میں اضافہ کر چکے ہیں ۔ مثال کے طور پر لوگوں کے خدشات دور کرنے کے لیے بااعتماد سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کے ذریعے لوگوں کو قائل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت داروں نے اس بیماری کے آغاز سے اب تک ویکسین کی فراہمی پر ہر سال لگ بھگ ایک ارب ڈالر خرچ کیے ہیں ۔ ان فنڈز کا زیادہ تر حصہ بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن، عطیات دینے والے ملکوں اور نجی اداروں نے دیا۔
پاکستان میں عہدے داروں نے کہا ہے کہ ان کا بنیادی مقصد پولیو کے حفاظتی ٹیکوں کی شرح میں اضافہ ہے۔ اس بل میں خسرہ ، نمونیہ اور کالی کھانسی سمیت دوسری بیماریاں بھی شامل ہیں۔
کراچی کی ایک ہیلتھ ورکر رخسانہ بی بی کہتی ہیں کہ انہیں امید ہے کہ نیا قانون ویکسین سے انکار کی شرح میں کمی لائے گا اور صحت کے کارکنوں کی حفاظت کرے گا۔ کراچی وہ علاقہ ہے جہاں پولیو کے دوبارہ ابھرنے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے ۔
پاکستان میں پولیو ویکسین کے خلاف ہچکچاہٹ کیوں؟
پاکستان میں بہت سے لوگوں کو ویکسین کی فنڈنگ کے بیرونی اداروں اور خود پاکستانی حکومت کے بارے میں شبہات ہیں۔ رخسانہ نے بتایا کہ کچھ پس ماندہ عناصر اس خلط سازشی نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ ویکسین مغربی ملکوں کی جانب سے لوگوں کو بانجھ بنانے کے ایک منصوبے کا حصہ ہے۔ لیکن بہت سے والدین کی ترجیح یہ ہے کہ حکومت انہیں صحت کی بہتر دیکھ بھال ، خوراک اور مالی معاونت فراہم کرے ۔
رخسانہ بی بی نے بتایا کہ والدین کا خیال ہے کہ حکومت کو ایسی ویکسینز کے لیے کیوں کہ گرانٹس ملتی ہیں اس لیے وہ ان پر توجہ مرکوز رکھتی ہے بجائے اس کے کہ صحت کی بنیادی دیکھ بھال فراہم کرے ۔
عوام کا اعتماد 2011 میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے ہیپا ٹائٹس ویکسی نیشن کے ایک جعلی پروگرام کی وجہ سے پہلے ہی متزلزل ہو چکا ہے ۔ اس مہم کے ذریعے القاعدہ کے سابق سر براہ اسامہ بن لادن کے بارے میں انٹیلی جینس اکٹھی کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
عسکریت پسندوں نے ویکسین تقسیم کرنے والے صحت کے کارکنوں کو بھی گولی مار کر ہلاک کیا اور ان کی حفاظت کرنے والے پولیس کے دستوں کو ہلاک کرنے کے لیے خود کش بمبار بھیجے تھے۔
لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں ویکسین کانفیڈینس پراجیکٹ کی ڈائریکٹر ہائید لارسن کہتی ہیں کہ میر انہیں خیال کہ لوگوں کو جیل میں ڈالنے سے کوئی فائدہ ہو گا ۔
سندھ کے ایک سرکاری عہدے دار نے ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ صوبے سندھ کے کچھ علاقوں میں والدین کی طرف سے پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کی شرح 15 فیصد تک ہے ۔ پولیو کے خاتمے کے لیے 95 فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کی ضرورت ہے ۔
سندھ حکام نے کہا کہ والدین کو ویکسین لگونے سے انکار پر سزا ہو گی لیکن ان کی مرضی کے بغیر ان کے بچوں کو دوا نہیں دی جائے گی۔
فلا ڈلفیا کے بچوں کے اسپتال کے ویکسین ایجو کیشن سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پال اوفت نے کہا کہ تعزیری اقدامات سے والدین کے اعتماد کو دوبارہ قائم کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ منہ کے ذریعے دیے جانے والے پولیو کے قطرے بہترین ویکسین نہیں ہیں لیکن وہ ویکسین بالکل نہ لینے سے کہیں بہتر ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ یہ حتمی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے لیے سامنے آئے اور ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم بچوں کی ایک مخصوص شرح کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائیں گے تو پولیو ہمیشہ واپس آجائے گا۔ گزشتہ سال لگ بھگ دس سال میں پہلی بار امیر ملکوں میں وائرس کی نشاندہی ہوئی تھی جن میں برطانیہ ، اسرائیل اور امریکہ شامل تھے۔
کراچی میں تین بچوں کے والد محمد اختر نے کہا کہ وہ پولیو کی ویکسی نیشن کی اہمیت کو سمجھتے ہیں کیوں کہ ان کے کزن اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے ۔ لیکن لوگوں کو سزا دینے کے خیال سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ والدین کو یہ اختیار حاصل ہونا چاہیے کہ ان کے بچوں کو کونسی ویکسین دی جائے۔
کراچی کے قریب ایک اور علاقے بنارس ٹاؤن کے ایک اور والد خان محمد ان میں شامل ہیں جو غلط سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں ۔ ان کے سات بچے ہیں اور ان کی دلیل ہے کہ پولیو کسی بھی دوسری معذوری کی طرح کی ایک بیماری ہے۔
انہو ں نے کہا کہ ہمیں خدا نے ان بچوں سے نوازا ہے اور صرف وہ ہی ان کی حفاظت کرے گا ۔ آخر کار یہ خدا کی مرضی ہے ۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)
فورم