انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار رائے کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے پاکستان کے موقر روزنامہ 'ڈان' کے دفتر کے گھیراؤ کی مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان مظاہروں کو پرتشدد رخ اختیار کرنے سے روکے۔
پیر کو انگریزی روزنامہ 'ڈان' کے اسلام آباد دفتر کے باہر چند افراد نے مظاہرہ کیا تھا اور ڈان پر ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
آزادیٔ صحافت کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم 'رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز' کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیل باسٹرڈ نے ڈان اخبار کے دفتر کے گھیراؤ کو دھمکی دینے سے تشبیہ دی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اس واقعے کی عوامی سطح پر مذمت کریں۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بھی ڈان اخبار کے دفتر کے گھیراؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' کی چیئر پرسن کیتھیلن کیرل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی عوام کو ڈان اخبار کی کوریج پر اعتراض کرنے اور اس کے خلاف مظاہرہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن تشدد کی دھمکیاں اس حق سے باہر ہیں۔
خیال رہے کہ حالیہ چند دنوں میں پاکستان کے صحافتی اداروں پر دباؤ اور غیر اعلانیہ طور پر ٹی وی پر نشر ہونے والے انٹرویوز روکنے کے چند واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
'جیو نیوز' کے پروگرام جرگہ میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ کا انٹرویو نشر کیا جا رہا تھا جسے کچھ دیر بعد مبینہ طور پر بند کرا دیا گیا تھا۔ پروگرام کے پروڈیوسر نے انٹرویو روکے جانے کی تصدیق کی ہے۔
اس کے علاوہ تجزیہ کار حامد میر کا 'روز' ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو بھی نشر ہونے سے پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔
ایسے واقعات کے خلاف پاکستان کی صحافتی تنظیمیں صحافت پر عائد مبینہ پابندیوں، ریاستی دباؤ اور غیر اعلانیہ سینسر شپ کے واقعات کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔
'رپورٹرز وِد آوٹ بارڈرز' کے پاکستان میں نمائندے اقبال خٹک کہتے ہیں کہ ڈان اخبار کے دفتر کا گھیراؤ ادارے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انٹرویوز کو نشر نہ ہونے دینا کوئی نیا واقعہ نہیں رہا۔ ان کے بقول لگتا ہے کہ پاکستان میں سوائے ایک نقطۂ نظر کے علاوہ کوئی بھی اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔
اقبال خٹک نے کہا کہ پاکستان میں صحافت پر قدغنوں، سینسر شپ اور صحافیوں کو اپنا کام آزادی سے نہ کرنے دینے پر دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔
اقبال خٹک کے مطابق بین الاقوامی صحافتی تنظیمیں یہ تسلیم کر چکی ہیں کہ پاکستان میں صحافی گھٹن کا شکار ہیں۔
معروف صحافی و ٹی وی اینکر حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں غیر اعلانیہ سینسر شپ چل رہی ہے اور کسی کا انٹرویو نشر نہ ہونے دینا اب انہونی بات نہیں رہی۔
ان کے بقول ان سب میں ایک چیز مشترک ہے کہ یہ کرانے والے "نامعلوم افراد" ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاست میں سب سے زیادہ طاقت ور نامعلوم افراد ہیں جو میڈیا کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اس قدر خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں کہ ایک ٹی وی انٹرویو یا اخبار کی خبر کی سرخی برداشت نہیں کر سکتے۔
حامد میر نے کہا کہ جب ریاست میں نامعلوم افراد میڈیا کو کنٹرول کریں تو پھر آئین و قانون کی بالادستی نہیں رہتی۔
گو کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے ان واقعات کے بعد کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں میڈیا مکمل آزاد ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافتی آزادی پر قدغن نہیں ہے۔ لیکن قومی سلامتی سے متعلق معاملات پر میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
فردوس عاشق اعوان کے بقول دہشت گردی اور ملک میں نظر نہ آنے والے دشمن کے خلاف جاری جنگ کے باعث پاکستان کے میڈیا حالات کا موازنہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں اگرچہ میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔ لیکن صحافیوں اور نشریاتی اداروں کے لیے خطرات اور مختلف حلقوں کی طرف سے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
'رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز' کی طرف سے جاری ہونے والی رواں سال کی رپورٹ کے مطابق آزادیٔ صحافت کے حوالے سے پاکستان 180 ملکوں کی فہرست میں 142 ویں نمبر پر ہے۔