امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ اور روسی صدر دِمتری مدویدیف دوطرفہ امور کو نئی جہت دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسٹر مدویدیف ‘ ایک ٹھوس اور قابلِ اعتماد پارٹنر ہیں۔’
مسٹر اوباما نے یہ بات جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں مسٹر مدویدیف کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کہی۔ دونوں رہنماؤں نے اپنی گفتگو واشنگٹن کے نواحی علاقے کے ایک ہیمبرگر ریستوران میں کی۔
صدر اوباما نے کہا کہ کیونکہ روس کی عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کی رکنیت کے حصول کے حوالے سے 90سے95فی صد معاملات طے ہو چکے ہیں، اِس لیے وہ روس کی اس تنظیم میں دوبارہ داخلے پر غور و غوض کو تیز تر کرنے کی کوششیں کریں گے۔ باقی مشکل معاملات کے بارے میں مسٹر اوباما نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ رواں سال کے اواخر تک یہ بھی حل ہو جائیں گے۔
مسٹر مدویدیف نے کہا کہ اُنھیں توقع ہے کہ ڈبلیو ٹی او میں روس کی رکنیت کا معاملہ ستمبر تک طے ہو جائے گا۔
مسٹر اوباما نے اعلان کیا کہ اُن کے اور روسی صدر کے درمیان روس کو امریکی مرغیوں کی برآمد کا پھر سے آغاز کرنےکی اجازت کے معاملے پر سمجھوتا طےپا گیا ہے، جس پر چھ ماہ قبل ماسکو کی طرف سے لگائی گئی پابندی اُٹھا لی گئی ہے۔
صدر مدویدیف نے امید کا اظہار کیا کہ کیلی فورنیا کی سیلیکان ویلی کی طرز پر ماسکو سے باہر ایک ٹیکنالوجی سینٹر قائم کرنے کے لیے امریکی کمپنیاں سرگرمی سے حصہ لیں گی۔
مسٹر مدویدیف نے بدھ کے دِن کیلی فورنیا کے ایک علاقے کا دورہ کیا، جہاں متعدد ہائی ٹیک کمپنیاں قائم ہیں۔ وہاں پر اُن کی ملاقات ایپل، سِسکو سسٹمز، گوگل اور ٹِوٹر اداروں کے سربراہان سے ہوئی۔
روسی صدر ، تیل پر انحصار کرنے والی روسی معیشت کو جدید کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ اُنھوں نے سِسکو سسٹمز سے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی اور ٹِوٹر کے سماجی نیٹ ورکنگ انٹرنیٹ سائٹ پر اپنا اکاؤنٹ بھی کھولا۔
جمعرات کو دونوں صدور نے نشاندہی کی کہ عدم ِاتفاق والے باہمی امور اب بھی باقی ہیں جِن میں جارجیا کے ساتھ تعلقات شامل ہیں جہاں 2008ء میں مختصر لیکن خونریز لڑائی ہوئی تھی۔ لیکن دونوں نے اتفاقِ رائے والےامور پر زور دیا جِن میں جوہری اسلحے کی تخفیف کا نیا سمجھوتہ شامل ہے جِس پر اپریل میں دستخط ہوئے، اور سا تھ ہی جوہری پروگرام جاری رکھنے پر ایران اور شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں پر ہونےوالے سمجھوتے پر اتفاقِ رائے بھی ہوا۔
مسٹر مدویدیف نے جمعرات کو کہا کہ اُنھیں توقع ہے کہ روسی پارلیمان بہت جلد جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے سمجھوتے کی توثیق کردے گی۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اُن کے اور صدر مدویدیف کے پاس اب ٹِوٹر اکاؤنٹ موجود ہیں، جِن کی بدولت وہ اِس قابل ہو سکتے ہیں کہ سُرخ فون کو الوداع کہہ دیں۔ اُن کا یہ حوالہ اُس ہاٹ لائن ٹیلی فون لنک کی طرف تھا جو سرد جنگ کے دوران وائٹ ہاؤس اور کریملن کے مابین فوری رابطہ قائم کرنے کا کام دیتا تھا۔