انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے، ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی جنوبی ایشیا کے لیے ڈائریکٹر، میناکشی گنگولی نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں ’رائٹ ٹو موومنٹ‘ (تحریک کا حق) فریڈم آف ایکسپریشن (اظہار رائے کی آزادی) اور فریڈم آف ایسوسی ایشن (ایک جگہ اکٹھے ہونے کی آزادی) پر عائد پابندی فوری طور پر ختم کرے۔ بقول ان کے، ’’اگر حکومت کا دعویٰ ہے کہ سب اچھا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کرفیو کیوں ہے؟‘‘
’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں میناکشی گنگولی نے کہا کہ کشمیر میں کمیونیکیشن کا نظام معطل ہے، جب کہ ’’آج کل کے دور میں بات سے بنکنگ تک، ہر چیز میں انحصار ٹیکنالوجی پر ہے۔ ان حالات میں یہ پابندیاں فوری طور پر ہٹائی جائیں‘‘۔ ان کے بقول، ’’جب معلومات قابل بھروسہ نہیں ہوتی تو ارد گرد سے سامنے آنے والی کہانیوں سے ڈر لگتا ہے۔ اور پھر خطرات بڑھ جاتے ہیں‘‘۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے گزشتہ روز مطالبہ کیا تھا کہ بھارت اپنے ان اقدامات کو واپس لے جو اس نےکشمیر میں اٹھائے ہیں۔
اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، میناکشی گنگولی نے بتایا کہ ’’حقوق کے ادارے صرف زبانی کلامی بیانات نہیں دیتے بلکہ جس ملک میں انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں، وہاں کی حکومتوں اور عہدیداروں سے بھی بات کرتے ہیں‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ کشمیر کی صورتحال پر بھی بھارت میں ذمہ دار حلقوں سے حقوق کے ادارے بات کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہمھیں بتایا جا رہا ہے کہ جو اقدامات لیے گئے ہیں وہ سیکورٹی کی صورتحال کے پیش نظر ہیں۔ اور اب حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ اگر حالات بہتر ہیں تو ہم پوچھتے ہیں پھر کرفیو کیوں نافذ ہے؟‘‘ اور پھر یہ سیکورٹی کے لیے بین الاقوامی قوانین ہیں جن کے مطابق ایک شرح تناسب سے ہی سیکورٹی بڑھائی جاتی ہے‘‘۔
میناکشی گنگولی نے کہا کہ ’’یہ احساس ہونا چاہیے کہ کشمیر کے اندر موجودہ حالات میں کوئی بیمار ہسپتال پہنچ سکتا ہے نہ ڈاکٹر کو بلا سکتا ہے۔ علاقے سے شکایت مل رہی ہے کہ ادویات تک کی رسد ختم ہو رہی ہے۔ جو لوگ مستقل ادویات کھاتے ہیں ان کے پاس دوا کی کمی ہے۔ بہت ضروری ہے کہ کرفیو فوری طور پر ختم کیا جائے تاکہ ضروری اشیا تک رسائی عام ہو‘‘۔
ہیومن رائٹس واچ کی عہدیدار نے مزید کہا ہے کہ ’’موبائل، لینڈ لائنز سب کچھ بند ہے اور جہاں کچھ لینڈ لائنز کھولی گئی ہیں وہاں لوگوں کی قطاریں لگی ہیں۔ سب لوگ اپنے عزیز رشتہ داروں سے خیریت جاننا چاہتے ہیں۔ جب رابطے اور بات نہیں ہوتی اور قابل بھروسہ معلومات نہ ہوں تو جو کہانیاں جنم لے رہی ہوتی ہیں وہ لوگوں کو خوفزدہ کر دیتی ہیں‘‘۔