پاکستان نے بھارت کے ساتھ قومی سلامتی کے مشیروں کے سطح دوطرفہ مذاکرات سے قبل ترجمان بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان کو ’مایوس کن‘ قرار دیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ سے جمعہ کی شب جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ بھارت نے بات چیت کے سلسلے سے قبل پیشگی ’شرائط رکھ دی ہیں‘۔
یہ مذاکرات 23 اور 24 اگست کو ہونا ہیں۔ جو روس کے شہر اوفا میں 10 جولائی کو دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی جانب سے کیے گئے فیصلے کی کڑی ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’’دوسری بار ایسا ہوا ہے کہ بھارت نے دونوں وزرائےاعظم کی جانب سے ایک مربوط مکالمہ شروع کرنے کے باہمی اتفاق رائے کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے سے روگردانی کی ہے، جس میں غیر سنجیدہ بہانے بازی کا سہارا لیا گیا ہے‘‘۔
ترجمان نے کہا ہے کہ ’’گزشتہ چند ماہ کے دوران، لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر (فائر بندی کی) خلاف ورزیاں روز کا معمول بن چکی ہیں، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں پریشان کُن حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ تناؤ میں کمی لانے کی خاطر فوری طور پر مخلصانہ اور سنجیدہ مذاکرات شروع کیے جائیں اور تعلقات کو بحال کرنے کے عمل کو سنجیدگی سے لیا جائے‘‘۔
نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے سرتاج عزیز کے دورے کے موقع پر23 اگست کو دی جانے والی ایک ضیافت میں شرکت کے لیےکشمیری حریت کی قیادت کو مدعو کیا تھا، جو کہ گزشتہ کئی سالوں سے روایت رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’’پاکستان سمجھتا ہے کہ کوئی جائز سبب نہیں جس کے تحت اس پرانی روایت پر عمل نہ کیا جائے۔ بات یہ ہے کہ کشمیری حریت کے رہنما تنازع کشمیر کے دیرپا حل کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں میں حقیقی فریق ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی اسی بات کو جواز بنا کر بھارت نے گزشتہ سال 25 اگست کو سکریٹری خارجہ کی سطح کے مذاکرات کو منسوخ کیا تھا۔
واضح رہے کہ جمعہ کی شام بھارتی ذرائع ابلاغ کی طرف سے یہ خبر دی گئی کہ 23 اگست کو ہونے والے مذاکرات منسوخ کر دیئے گئے، تاہم بعد میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے کہا تھا کہ مذاکرات منسوخ نہیں کیے گئے ہیں لیکن اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ بات چیت شرائط رکھ کر نہیں ہو سکتی۔
اس سے قبل پاکستان نے کہا تھا کہ بھارت کی اُس تجویز کو قبول کرنا ممکن نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سرتاج عزیز اپنے دورے کے دوران کشمیری رہنماؤں سے ملاقات نا کریں۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے جمعہ کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات سے قبل پاکستانی مشیر کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات ’مناسب‘ نہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ سے جمعہ کی شام جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے بھارتی ہائی کمیشن کو آگاہ کر دیا ہے کہ بھارت کے اس ’’مشورے‘‘ پر عمل درآمد ممکن نہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور بھارت کے دورے کے دوران پاکستانی قیادت کشمیر رہنماؤں سے ہمیشہ ملاقات کرتی رہی ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات کے مجوزہ ایجنڈے سے بھی بھارت کو آگاہ کیا گیا جس میں کشمیر اور دیگر حل طلب مسائل کے علاوہ دہشت گردی سے جڑے معاملات اور دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے لیے اقدامات شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ مذاکرات سے قبل بھارت کی جانب سے شرائط عائد کرنے سے اس عمل کے بارے میں پڑوسی ملک کی عدم سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔
تاہم بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان بغیر کسی پیشگی شرط کے قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح کے مذاکرات میں شرکت کے لیے آمادہ ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان بھارت سے تمام حل طلب مسائل پر بامعنی مذاکرات کا خواہاں ہے۔
اُدھر جمعہ کی صبح پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ایک اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل اور وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے بھی شرکت کی۔
اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کےمشیروں کی سطح کے مذاکرات سے متعلق اُمور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چوہدری نثار کے علاوہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی شریک تھے۔
پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ بھارت سے بات چیت سے قبل کشمیری رہنماؤں سے ملاقات روایت رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ملاقات 23 اور 24 اگست کو نئی دہلی میں طے ہے جس میں شرکت کے لیے سرتاج عزیز نے بھارت جانا ہے۔
اس ملاقات سے قبل بھارت میں پاکستان کے ہائی کمیشن میں کشمیری رہنماؤں کو سرتاج عزیز سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔
گزشتہ سال بھی دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری سطح کے درمیان مذاکرات سے قبل نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات پر بھارت نے بات چیت منسوخ کر دی تھی۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے جمعرات کو ہی اعلان کیا تھا کہ آئندہ ماہ پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی دولت مشترکہ کی پارلیمانی کانفرنس نا کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ کچھ رکن ممالک کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ پارلیمانی کانفرنس میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی اسمبلی کے اسپیکر کو بھی مدعو کیا جائے۔
اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اس لیے وہاں سے کسی وفد کو شرکت کی دعوت نہیں دی جا سکتی۔ اُنھوں نے اسی بنا پر پارلیمانی کانفرنس نا بلانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں حالیہ مہینوں میں کشمیر میں حد بندی لائن پر فائرنگ کے واقعات کے باعث تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ نئی دہلی میں قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات میں سرحدی کشیدگی کو کم کرنے اور دہشت گردوں سے جڑے معاملات پر خاص طور پر بات چیت کی جائے گی۔
تاہم پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو کہا تھا کہ مذاکرات میں کشمیر سمیت تمام اُمور پر بات چیت کی جائے گی۔