آٹھ دہائیوں تک بالی وڈ پر راج کرنے والے دیو آنند کو اپنے مداحوں سے پچھڑے تو 12 برس بیت چکے ہیں لیکن ان کے لاتعداد ہٹ گانے اور فلموں نے آج بھی انہیں زندہ رکھا ہوا ہے۔
سن 1946 میں فلموں کی دنیا میں قدم رکھنے والے والے فن کار نے 2011 تک اداکاری، ہدایت کاری اور پروڈکشن میں قسمت آزمائی کی اور ہر شعبے میں کامیاب ہوئے۔
دیو آنند کا شمار 50 اور 60 کی دہائی کے مقبول ترین اداکاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ وہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں اپنے اسٹائل کی وجہ سے مقبول تھے۔
دیو آنند کا اصل نام دھرم دیو پشوری مل آنند تھا اور وہ 26 ستمبر 1923 کو پنجاب کے شہر شکرگڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ لاہور کے گورنمنٹ کالج سے گریجویشن مکمل کرکے انگلستان جاکر مزید پڑھنا چاہتے تھے لیکن گھریلو حالات اور فلموں کا شوق انہیں ممبئی لے آیا جہاں انہوں نے 1946 میں'ہم ایک ہیں' کے ذریعے ڈیبیو کیا۔
چند فلموں کی ناکامی کے بعد فلم 'ضدی' ان کی پہلی کامیاب فلم بنی۔ بعدازاں انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اگلے 40برسوں تک انڈسری پر راج کیا۔
ان کی یاددگار فلموں میں پیئنگ گیسٹ، بازی، جیول تھیف، سی آئی ڈی، جانی میرا نام، امیر غریب، ٹیکسی ڈرائیور، ہم دونوں اور جب پیار کسی سے ہوتا ہے شامل ہیں۔
ان کی ہوم پروڈکشن 'تیرے گھر کے سامنے' کو بالی وڈ کی پہلی روم کوم بھی کہا جاتا ہے۔
اپنے 65 سالہ فلمی کریئر کے دوران انہوں نے 100 سے زائد فلموں میں اداکاری کی جس میں سے کئی کی ہدایات بھی انہوں نے خود دیں۔ انہیں ان کی خدمات کے عوض بھارتی حکومت نے پدما بھوشن اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
دیو آنند اور گرودت: جنہیں ایک دھوبی کی غلطی نے دوست بنا دیا
اپنی سوانح عمری 'رومینسنگ ود لائف' میں دیو آنند نے معروف ہدایت کار گرودت سے ملاقات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اگر ان دونوں کا مشترکہ دھوبی غلطی سے ان کی شرٹ تبدیل نہ کرتا تو وہ ایک دوسرے سے نہ ملتے۔
دیو آنند نے بطور اداکار پہلے کامیابی حاصل کی جس کے بعد انہوں نے بطور پروڈیوسر اپنی دوسری ہی فلم 'بازی' کے لیے گرودت کا بطور ہدایت کار انتخاب کیا اور اسی فلم نے انہیں صفِ اول کا ہدایت کار بنانے میں مدد کی۔
بعدازاں گرودت نے اپنی ہوم پروڈکشن 'سی آئی ڈی' میں دیو آنند کو کاسٹ کیا جو اپنے زمانے کی کامیاب فلموں میں سے ایک تھی۔ یوں دونوں فن کاروں نے انڈسٹری میں کامیاب ہونے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا وعدہ پورا کیا۔
بالی وڈ ہدایت کار و پروڈیوسر مہیش بھٹ اپنی کتاب 'خوابوں کا سفر' میں دیو آنند کے اسٹوڈیو 'نیوکیتن' کے بارے میں لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 1949 سے لے کر 2011 تک اس اسٹوڈیو کی لمبی اننگز کے پیچھے دیو آنند کا ہاتھ تھا۔
اس کتاب میں مختلف صحافیوں نے دیو آنند کے بارے میں بات بھی کی جس میں زیادہ تر نے نہ صرف دیو آنند کو اس اسٹوڈیو کی کامیابی کا ذمے دار قرار دیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ پہلے انہوں نے بڑے بھائی چیتن آنند کے ساتھ مل کر فلمیں بنائی پھر چھوٹے بھائی وجے آنند اور آخر میں خود ہی فلمیں پروڈیوس بھی کرتے اور ان کی ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ ہیرو بھی خود ہی ہوتے تھے۔
کتاب 'خوابوں کا سفر' کے مطابق 'نیوکیتن' اسٹوڈیو کی فلموں میں ہالی وڈ سے متاثر ہونے کی جھلک نظر آتی تھی اور اسی وجہ سے ان کا ہیرو ہمیشہ پڑھا لکھا اور مغربی کلچر سے متاثر نظر آتا تھا۔
معروف اداکارہ دیویا دتہ نے اپنی کتاب 'دی اسٹارز ان مائی اسکائی' میں دیو آنند کے حوالے سے خوب باتیں کی۔ انہوں نے نہ صرف بطور ہدایت کار دیو آنند کی آخری فلم'چارج شیٹ' میں اداکاری کو ایک یادگار تجربہ قرار دیا۔
اپنی کتاب میں وہ لکھتی ہیں کہ آؤٹ ڈور شوٹ کے لیے جانے والے تمام اداکاروں کی خیریت وہ خود دریافت کرتے تھے۔ ان کی ہدایت کاری کے اسٹائل کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیو صاحب جب شوٹ پر ہدایات دیتے تھے تو ادھر سے میں آؤں گا اور میں یہ کہوں گا کی جگہ 'ادھر سے دیو آئے گا اور دیو یہ کہے گا' کہتے تھے۔
ان کے بقول فلم کی ریلیز سے قبل دیو آنند نے انہیں فون کرکے درخواست کی کہ ایک لائن دوبارہ ڈب کرنا ہو گی۔ دیویا دتہ لکھتی ہیں کہ وہ سمجھیں کہ ان کے مکالمے 'ڈرٹی اولڈ مین' میں سے لفظ 'ڈرٹی 'ہٹانا ہوگا لیکن دیو آنند کو لفظ 'اولڈ 'سے مسئلہ تھا۔
دیویا دتہ نے دیو آنند کی یادداشت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ جب 'چارج شیٹ' کے پریمیئر پر دیو آنند نے انہیں لال لباس میں دیکھا تو اداکارہ کو یاد دلایا کہ پہلی بار بھی جب وہ ان کے دفتر آئی تھیں تو لال رنگ کا لباس پہنے ہوئے تھیں۔
جب دیوآنند نے 'اوم شانتی اوم' میں مہمان اداکار کے طور پر آنے سے منع کیا
معروف فلمی صحافی انوپما چوپڑا نے اپنی کتاب 'فریز فریم' میں دیو آنند کا ایک یادگار انٹرویو شامل کیا ہے جس میں انہوں نے کئی باتوں سے پردہ ہٹایا۔
اس انٹرویو میں دیو آنند نے ہدایت کارہ فرح خان کی فلم 'اوم شانتی اوم' میں مہمان اداکار کے طور پر آنے سے بھی منع کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ زندگی بھر مرکزی کرداروں میں نظر آئےہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ مہمان اداکار کے طور پر فلم میں نظر آئیں۔
ان کے خیال میں اگر ایک اداکار پروڈیوسر بن کر اپنی فلم پر لگا ہوا پیسہ دگنا کرسکتا ہے تو اسے دوسروں کے لیے کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اسی لیے انہوں نے اپنے کریئر کے آخری برسوں میں صرف اپنی ہی بنائی فلموں میں کام کیا۔
اپنی وفات سے قبل ایک اور صحافی مدھو جین کو انٹرویو میں انہوں نے خود کو بڑی عمر کے کردار میں کاسٹ نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اسٹار کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ اسکرین پر بڑی عمر کے نظر آئیں گے تو ان کے مداح ناراض ہوجائیں گے اسی لیے اگر ان کے کردار کی عمر زیادہ ہوتی ہے تب بھی وہ اس کے بال سفید نہیں کرتے۔
فورم