رسائی کے لنکس

بھارت کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات، بی جے پی تین میں کامیاب


بی جے پی کے کارکنان انتخابات میں برتری پر جشن منا رہے ہیں۔
بی جے پی کے کارکنان انتخابات میں برتری پر جشن منا رہے ہیں۔

بھارت کی پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تیلنگانہ اور میزورم میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں مرکز میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کو برتری حاصل ہوئی ہے جب کہ اپوزیشن جماعت کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ووٹوں کی گنتی کے دوران سامنے آنے والے رجحانات کے مطابق بی جے پی مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومت بنانے جا رہی ہے جب کہ کانگریس کو تیلنگانہ میں حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں مل رہی ہیں۔ میزورم میں ووٹوں کی گنتی چار دسمبر کو ہوگی۔

مدھیہ پردیش میں بی جے پی، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اور تیلنگانہ میں ’بھارتیہ راشٹریہ سمیتی‘ (بی آر ایس) برسرِ اقتدار تھیں۔

یکم نومبر کو پولنگ مکمل ہونے کے بعد نیوز چینلز پر پیش کیے جانے والے ایگزٹ پولز کے نتائج میں راجستھان، چھتیس گڑھ اور تیلنگانہ میں کانگریس اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی جیت کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ بعض رپورٹس میں مدھیہ پردیش میں معلق اسمبلی کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

رجحانات کے مطابق بی جے پی نے مدھیہ پردیش میں اپنی حکومت تو بچائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی راجستھان اور چھتیس گڑھ بھی کانگریس سے چھین لیے ہیں۔بعض مبصرین یہ کہہ رہے تھے کہ چھتیس گڑھ میں بی جے پی مقابلے میں ہے ہی نہیں۔

بی جے پی کو مدھیہ پردیش میں 203 نشستوں میں 159 اور کانگریس کو 70 ملتی نظر آرہی ہیں۔

راجستھان میں بی جے پی کو 200 نشستوں میں 113 اور کانگریس کو 72 نشستیں مل رہی ہیں۔

چھتیس گڑھ کی 90 نشستوں میں بی جے پی کو 55 اور کانگریس کو 35 نشستیں ملنے کے واضح امکانات ہیں۔

اسی طرح تیلنگانہ میں 119 نشستوں میں سے کانگریس کو 65 اور بی آر ایس کو 37سیٹیں مل رہی ہیں۔

ان انتخابات کے بعد ریاستوں کی جو صورتِ حال نظر آ رہی ہے اس کے مطابق 12 ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ تین ریاستوں یعنی کرناٹک، ہماچل پردیش اور تیلنگانہ میں کانگریس کی۔ البتہ کانگریس بہار میں مخلوط حکومت میں شامل ہے۔

اگلے سال مارچ اور اپریل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل اسمبلی انتخابات کے اگلے دور میں آندھرا پردیش، اروناچل پردیش، اڑیسہ اور سکم میں انتخابات ہوں گے۔

وزیرَ اعظم نریندر مودی نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے عوام کا بی جے پی کو کامیابی دلانے کے لیے شکریہ ادا کیا ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ بھارت کے عوام نے بی جے پی کی اچھی حکمرانی اور ترقیاتی پالیسیوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

وزیرِ داخلہ امت شاہ نے تینوں ریاستوں کے عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی عوامی پالیسیوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے تیلنگانہ میں کامیابی کے لیے وہاں کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے ان رائے دہندگان کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے کانگریس کو ووٹ دیا۔

سوشل میڈیا پوسٹ میں ارجن کھڑگے نے کہا کہ ہم اس عارضی شکست سے باہر آئیں گے اور پارلیمانی انتخابات کی تیاری کریں گے۔

ان کے بقول تین ریاستوں کے نتائج ہمارے لیے مایوس کن رہے ہیں۔ لیکن ہم ان ریاستوں میں پارٹی کو از سرنو منظم کریں گے۔

مبصرین کے مطابق 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل تین دسمبر کا اتوار بی جے پی کے لیے ’سپر سنڈے‘ثابت ہوا۔

نتائج کے مطابق صرف کانگریس پارٹی کو ہی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ علاقائی پارٹیوں کو بھی شکست ہوئی ہے۔

مبصرین کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی اب بھی بی جے پی کے سب سے بڑے الیکشن کمپینر ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے سب سے زیادہ انتخابی ریلیاں انہوں نے ہی کی تھیں۔

ان کے بقول اب بھی ’مودی برینڈ‘ کی چمک دمک باقی ہے۔ حالانکہ متعدد تجزیہ کار کانگریس کی شکست کا سبب اس کی ناقص انتخابی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اب جب کہ بی جے پی کو تین ریاستوں میں کامیابی مل رہی ہے وہ زیادہ جوش خروش کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں اترے گی۔

بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے ارمان بھٹناگر کے مطابق 2018 میں بی جے پی نے کانگریس کے ہاتھوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کو گنوا دیا تھا۔ لیکن اب اس نے پھر سے ان ریاستوں کو کانگریس سے چھین لیا۔

یاد رہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی چھ ماہ کی حکومت کے بعد اس کے بعض ارکان کی بغاوت کی وجہ سے حکومت گر گئی تھی اور بی جے پی نے اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔

ارمان بھٹناگرکے مطابق کرناٹک اور ہماچل پردیش میں شکست کے بعد تین ریاستوں میں کامیابی نے بی جے پی کے کارکنوں میں نیا حوصلہ پیدا کیا ہے۔ وہ زیادہ جوش و ولولے کے ساتھ 2024 کا الیکشن لڑیں گے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ کانگریس کی شکست اپوزیشن اتحاد ’انڈین نیشنل ڈیموکریٹک انکلیوسیو الائنس‘ (انڈیا) کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

سینئر تجزیہ کار اشوک وانکھیڈے کے مطابق اگر ان ریاستوں میں کانگریس کو شاندار کامیابی ملتی تو وہ انڈیا اتحاد میں من مانی سودے بازی کرتی اور اتحاد ٹوٹ جاتا۔ لیکن اب اس نے سودے بازی کی اپنی طاقت کھو دی ہے۔

انتخابی نتائج پر الگ الگ پارٹیوں کی جانب سے بھی ردِ عمل آنا شروع ہو گیا ہے۔

مغربی بنگال میں برسراقتدار ’ترنمول کانگریس‘ (ٹی ایم سی) کے ترجمان کنال گھوش کے مطابق یہ بی جے پی کی کامیابی نہیں بلکہ کانگریس کی مکمل شکست ہے۔

ان کے بقول کانگریس کو اپنی زمین دارانہ ذہنیت سے باہر آنا اور ممتا بنرجی جیسے عوامی رہنماؤں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان اسمبلی انتخابات کا اثر 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے امکانات پر نہیں پڑے گا۔

البتہ انہوں نے انڈیا اتحاد میں قیادت کی دعوے داری کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ایم سی بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اپنی قیادت پیش کر سکتی ہے۔

جنتا دل (یونائیٹڈ) کے سینئر رہنما اور سابق رکن پارلیمان کے سی تیاگی کا کہنا ہے کہ نتائج سے یہ واضح ہے کہ کانگریس بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

انہوں نے انتخابات کے دوران انڈیا اتحاد میں شامل جماعتوں کو نظرانداز کرنے پر کانگریس پر تنقید کی۔

یاد رہے کہ انڈیا اتحاد کا اجلاس چھ دسمبر کو ہونے والا ہے۔

قبل ازیں بہار کے وزیرِ اعلیٰ اور اپوزیشن اتحاد کے محرک نتیش کمار نے انڈیا اتحاد کو سرگرم نہ کرنے پر کانگریس پر تنقید کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ اتحاد کو آگے بڑھانے کے بجائے انتخابات میں مصروف ہے۔

تجزیہ کار اشوک کمار پانڈے کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کی جیت نہیں بلکہ کانگریس کی انا کی ہار ہے۔

ان کے بقول مدھیہ پردیش میں کانگریس کی قیادت نے علاقائی اور قبائلی جماعتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس نے پرانے رہنماؤں پر بھروسہ کیا اور پرانے رہنماؤں نے ناقص حکمتِ عملی اختیار کی۔

ان کے مطابق کانگریس نے تیلنگانہ میں ایک نوجوان اے ریونتھ کو ریاستی کانگریس کا صدر بنایا اور انھوں نے جی توڑ محنت کرکے پارٹی کو کامیابی دلا دی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس نے بی جے پی کی ہندو وادی پالیسیوں کو اختیار کیا جسے عوام نے مسترد کر دیا۔

ان کے بقول جب بی جے پی جیسی اصل ہندو وادی پارٹی موجود ہے تو کانگریس کے ہندوتو کو کوئی کیوں تسلیم کرے گا۔

سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے سابق سینئر رہنما غلام نبی آزاد کے مطابق کانگریس کی شکست اس لیے ہوئی کہ اس نے اقلیتوں کے مفادات کی لڑائی چھوڑ دی ہے۔

ان کے بقول انہوں نے بیس پچیس روز کے دوران محسوس کیا کہ کانگریس اب اقلیتوں کے بارے میں بات ہی نہیں کرتی۔

کانگریس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب اقلیتیں اس کے ایجنڈے میں نہیں ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG