گیارہ ستمبر تاریخ کا وہ دِن ہے جِس کے نتیجے میں جہاں دنیا کی سیاست اور کئی ممالک کی خارجہ پالیسی میں بہت تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، وہاں دس برس سے جاری جنگ نے لوگوں کی ذہنی صحت اور نفسیات پر بھی منفی اثرات مرتب کیے۔
پاکستان اور افغانستان کے عوام دہشت گردی کے خلاف دس برس سے جاری جنگ کے براہِ راست متاثرین میں سے ہیں۔ اِس جنگ میں اگرچہ 9/11حملوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی کئی مشتبہ دہشت گرد مارے یا پکڑے گئے ہیں لیکن ہزاروں بے گناہ لوگ بھی بظاہر متاثر ہوئے ہیں اور نفسیاتی ماہرین کے مطابق بہت سے افراد اِس جنگ کی وجہ سے مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا پائے گئے ہیں۔
پاکستان سے نفسیاتی ماہر ڈاکٹر افتخار حسین کہتے ہیں کہ پاکستانی شہریوں میں خاص طور پر شورش زدہ صوبہٴ خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں پچھلے دس برسوں میں عام لوگوں میں ایک انجانے خوف، بے یقینی کی صورتِ حال ، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، ڈپریشن اور ذہنی پریشانی میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔
اِن نفسیاتی بیماریوں سے چھٹکارا پانے کے لیے لوگوں میں ذہن کو سکون پہنچانے والی اور بسا اوقات نشے آور ادویات کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے، جِس کے منفی اثرات نہ صرف اُن کی ذہنی صحت یا نفسیات ، بلکہ خراب جسمانی صحت کی صورت میں بھی سامنے آرہے ہیں۔
دس برس پہلے یہإں امریکہ میں 9/11کے حملوں میں 3000کے لگ بھگ افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ نیو یارک میں 9/11کے حملوں کے نفسیاتی طور پر متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ایک ادارے Association for Trauma Outreach & Preventionکی صدرڈاکٹر Anniنے بتایا کہ 9/11کو دس برس گزرنے کے بعد بھی امریکیوں کی نفسیات پر اس کے اثرات قائم ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس ناقابلِ یقین حادثے کے متاثرین میں اپنے رشتے داروں اور دوست احباب کو کھونے والوں کے علاوہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جِنھوں نے باربار اِس واقعے کی تصاویر ٹی وی پر دیکھیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اب بھی امریکہ میں ایسے سینٹرز کام کرہے ہیں جہاں لوگ اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں اور اُن کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ صرف درگزر کے ذریعے ہی اِس صدمے کو بھلا سکتے ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر اینی کے مطابق اِن سینٹرز میں لوگوں کی تعداد اب پہلے کی نسبت کم ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اجتماعی طور پر غم کی کیفیت، غصہ، ذہنی خفگی اور بے یقینی کی صورتِ حال جیسے نفسیاتی اثرات فوری طور پر نظر آئے تھے۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس کیفیت کی جگہ PTSDنے لے لی ہے، جو ایک ایسی کیفیت ہے جِس میں لوگ غم کا اظہار کرتے ہیں اور یہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان کی عام زندگی متاثر ہوتی ہے۔اِس پر قابو تو پایا جاسکتا ہے لیکن مکمل طور پر اِسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
دونوں ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے لوگوں کی بحالی کے لیے پاکستان، افغانستان اور امریکہ تینوں ممالک میں منظم اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی، ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو بدگمانیوں اور اجتماعی رنجشوں سے پاک ہو اور لوگ خود کو زیادہ محفوظ محسوس کریں۔ اِس سلسلے میں سول سوسائٹی، کمیونٹی اور ذرائع ابلاغ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: