10 اکتوبر کو دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہاہے۔ اس سال کا موضوع ہے دماغی عارضے کا جسمانی صحت سے تعلق مثلا ذیابیطس اور کینسر جیسے امراض کی صورت میں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہناہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ڈیپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ دماغی امراض کے ماہرین منشیات اورکثرت شراب نوشی کو بھی اس فہرست میں شامل کرتے ہیں جن سے لاکھوں افراد کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔
الینا برگر، دماغی صحت کی عالمی فاؤنڈیشن سے منسلک ہیں۔ امریکہ میں قائم اس ادارے نے 1992ء میں پہلی مرتبہ دماغی صحت پر عالمی کانفرنس کا نعقاد کیا تھا۔
مسز برگر کا کہنا ہے کہ غریب ممالک میں دماغی صحت سے متعلق مسائل بہت شدید ہیں کیونکہ ان کے پاس علاج معالجے کے لیے ضروری وسائل موجود نہیں ہوتے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت دماغی صحت کو ایک ایسے مسئلے کے طورپر سامنے لارہاہے جسے نظرانداز کیا جاتا رہاہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں ، لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو، یعنی 85 فی صد تک افراد کو دماغی امراض کے کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں ہے۔ وہاں اس کے لیے بڑے پیمانے پر عملہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہاں ایسے افراد کی مدد کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے اور وہاں اکثرمعاشروں میں دماغی بیماری کو شرمندگی اور بدنامی سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی صحت سے متعلق تقریباً نصف مسائل 15 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں نوجوان افراد کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اور یہی وہ ممالک ہیں جہاں دماغی صحت کی دیکھ بھال کی سہولتیں انتہائی کم ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی کے حامل ممالک میں ہر دس لاکھ افراد کے لیے بچوں کا صرف ایک نفسیاتی معالج ہے۔
عالمی سطح پر دماغی امراض اور معذوری کا سب سے بڑا سبب ڈیپریشن ہے ۔ 2002ء میں عالمی ادارہ صحت نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ افراد ڈیپریشن کا شکار ہیں۔
لیکن الینا برگر کا کہنا ہے کہ دوسری طرح کے دماغی امراض بھی زیادہ توجہ چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے والی بیماریوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اوردماغی صحت کے باعث پیدا ہونے والی معذوری پر زیادہ دھیان نہیں جاتا۔ ایسی معذرویاں موجود ہیں جن میں لوگ اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام کرنے قابل نہیں رہتے۔ وہ کما نہیں سکتے جس سے ان کے کنبے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مسز برگر کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم اور عالمی ادارہ صحت حکومتوں پر یہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ دماغی صحت کی دیکھ بھال کو اپنے ترقیاتی اہداف میں شامل کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے دنیا بھر میں دماغی امراض میں مبتلا افراد کے علاج معالجے اور سہولتوں میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
مسز برگر کہتی ہیں کہ دماغی اور جسمانی معذروی میں مبتلا افراد کو ایسے کمزور گروپوں میں شمار کیا جانا چاہیے جنہیں خصوصی مدد درکار ہے۔ انہیں معاشرے کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے اور انہیں معاشرے سے الگ تھلک اور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے جیسا کہ آج کے دور میں اکثراوقات کیا جاتا ہے۔