امریکی سینیٹ جلد ہی ایک بل پر بحث کا آغاز کرنے والی ہے جس میں امیگریشن سے متعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ بل خاندان کے افراد کو یکجا کر نے سے متعلق امیگریشن کے موجودہ نظام کو ایک نئے سسٹم میں تبدیل کر دے گا جس کی بنیاد پوائنٹس پر ہوگی ۔ اسے میرٹ امیگریشن کا نام دیا جا رہا ہے۔
پوائنٹ کی بنیاد کا امیگریشن سسٹم کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ برطانیہ میں پہلے سے ہی اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ جرمنی بھی پوائنٹس پر مبنی نظام شروع کرنے جا رہا ہے۔ جب کہ کینیڈا اور آسٹریلیا میں یہ سسٹم طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں۔
آئیے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ پوائنٹس سسٹم کیا ہے، یہ کس طرح کام کرتا ہے اور صدر ٹرمپ کا مجوزہ سسٹم اس وقت کے مروجه نظام سے کس طرح مختلف ہے۔
کینیڈا وہ پہلا ملک ہے جس نے 1967 میں پوائنٹ سسٹم شروع کیا تھا۔ اس میں درخواست گذار کی تعلیم، کام کا تجربہ، ملازمت کی پیش کش، درخواست گذار کی عمر اور خاندان کے پس منظر کے لیے کل 100 پوائنٹس رکھے ہیں۔ اگر وہ روانی سے انگریزی یا فرانسیسی پڑھ لکھ سکتا ہے تو وہ اس کے 28 تک نمبر حاصل کر سکتا ہے۔
کینیڈا کی امیگریشن حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار لازمی طور پر 67 پوائنٹس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیکل کا امتحان بھی پاس کرے۔
سن 2017 میں کینیڈا کی امیگریشن حاصل کرنے والوں کی نصف سے زیادہ تعداد یعنی ایک لاکھ 72 ہزار 500 افراد کو کام کرنے کی اہلیت کی بنیاد پر ملک میں داخلے کی اجازت ملی جب کہ خاندان کی بنیاد پر داخل ہونے والوں کی تعداد محض 84 ہزار تھی۔
آسٹریلیا نے امیگریشن کا پوائنٹس سسٹم 1989 میں متعارف کرایا تھا جس میں امیدوار کے لیے انگریزی میں روانی، کسی پیشے میں مہارت، تعلیمی پس منظر اور آسٹریلیا میں کسی رشتے دار کی موجودگی کی بنیاد پر کم ازکم 60 پوائنٹس حاصل کرنے ضروری ہیں۔
آسٹریلیا ان درخواست گذاروں کو 30 پوائنٹس دیتا ہے جن کی عمر کام کرنے کے لحاظ سے موزوں ہوتی ہے۔
آسٹریلیا میں سن 2016-17 میں کام کی بنیاد پر تقریباً سوا لاکھ افراد کو امیگریشن دی گئی جب کہ خاندان کی بنیاد پر صرف 56 ہزار کے لگ بھگ افراد کو ملک میں داخل ہوئے۔
اس کے برعکس امریکہ کا امیگریشن کے نظام کی بنیاد خاندان کو یکجا کرنے پر مبنی ہے۔ سن 1956 کے امیگریشن ایکٹ کے تحت امریکہ ہر سال 4 لاکھ 80 افراد کو خاندان کی بنیاد پر اور ایک لاکھ 40 ہزار افراد کو کام کی بنیاد پر امیگریشن دیتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ خاندان کی بنیاد کی پالیسی کی وجہ سے ایسے افراد امیگریشن حاصل کر رہے ہیں جن میں کام کرنے کی مہارتیں کم ہوتی ہیں۔ جب کہ اس پالیسی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ پوائنٹس کی پالیسی اختیار کرنے سے حکومت کے مالی بوجھ میں اضافہ ہو گا کیونکہ فیملی امیگریشن پالیسی میں ویزہ حاصل کرنے والوں کے تمام اخراجات ان کے اسپانسر برداشت کرتے ہیں جب کہ پوائنٹس پالیسی کے تحت یہ اخراجات حکومت کو اٹھانے ہوں گے۔
سن 2016 میں امریکہ میں تقریباً 12 لاکھ نئے امیگرنٹس داخل ہوئے جن میں اکثریت میکسکو، کیوبا، بھارت، چین اور ڈومینکن ری پبلک کی تھی۔
اسی سال کینیڈا نے 2 لاکھ 96 ہزار امیگرنٹس قبول کیے جن میں سب سے زیادہ تارکین وطن فلپائن، بھارت، شام، چین اور پاکستان سے تھے۔
آسٹریلیا نے 2016-17 میں ایک لاکھ 84 ہزار افراد کو امیگرنٹ ویزہ دیا جن میں اکثریت کا تعلق بھارت، چین، برطانیہ، فلپائن اور پاکستان سے تھا۔
پوائنٹس پالیسی کے نتائج روزگار کے حوالے سے غور طلب ہیں۔ آسٹریلیا کے محکمہ روزگار کی نومبر 2017 کی رپورٹ کے مطابق نئے اور پرانے تارکین وطن میں بے روزگاری کی شرح 7 اعشاریہ 4 فی صد ہے جب کہ آسٹریلیا میں پیدا ہونے والوں میں بے روزگاری کی سطح 5 اعشاریہ 4 فی صد ہے۔
کینیڈا کے محکمہ لیبر کے نومبر 2016 کے ڈیٹا کے مطابق نئے اور 5 سال پرانے غیر ملکی تارکین وطن میں بے روزگاری کی شرح 9اعشاریہ 6فی صد جب کہ ملک کی عمومی بے روزگاری کی سطح 5 اعشاریہ 4 فی صد تھی۔
ان دونوں ملکوں کے برعکس روزگار سے متعلق 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں غیر ملکی تارکین وطن کی بے روزگاری کی سطح 4 اعشاریہ 3 فی صد جب کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے بے روزگار افراد کا تناسب 4 اعشاریہ 9 فی صد تھا۔