رسائی کے لنکس

مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں کی لہر اور اسلامی تنظیموں کا کردار


مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں کی لہر اور اسلامی تنظیموں کا کردار
مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں کی لہر اور اسلامی تنظیموں کا کردار

مشرق وسطی میں عوامی تحریکوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے جہاں دنیا بھر کی نظریں اس خطے پر مرکوز کردی ہیں وہیں ماہرین اس پہلو کو بھی اپنے تجزیوں کا موضوع بنارہے ہیں کہ ان تبدیلیوں میں اسلام اور اسلامی تنظیموں کا کیا کردار رہاہے۔

تیونس مصر لیبیا اور اب شام ،مشرق وسطی کے اسلامی ممالک میں تبدیلی کی ایک ایسی لہر جس کی منزل شاید ابھی تک نا معلوم ہے۔

پروفیسر رمضان طارق آکسٹورڈ یونیورسٹی کے کانٹمپریری اسلامک اسٹڈیز کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا ہے کہ ہم کن روایات کی نشو نما کر رہے ہیںٕ۔ ہم اجتماع کی بات کرتے ہیں، جمہوریت اور لوگوں کی آزادی رائے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہم ان تمام مطالبات کے بعد اسلامی دنیا میں ایک شفاف جمہوریت تک پہنچ پائیں گے یا پھر ہم ایک نا معلوم منزل کی طرف گامزن ہیں؟

یہاں واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک میں اسلامی دنیا میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم معاشی حالات کو موجودہ تبدیلیوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، لیکن ان کی کچھ ذمہ داری ان ملکوں کے سیاسی حالات پر بھی عائد ہوتی ہے۔

پروفیسر رمضان کا کہنا تھا کہ یورپ اور امریکہ میں آنے والا جمہوری نظام ، جسے ہم سیکیولرازم کی پیداوار قرار دیتے ہیں، اسلامی دنیا میں اٹھنے ہونے والے مطالبات سے یکسر مختلف ہے۔ اسلامی ممالک میں ہم نے ریاست کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ مذہب کے نام پر لوگوں پر حکومت کرے۔ عرب دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ کام ایسے لوگوں کے ہاتھوں انجام پایا جنھیں ہم آج ڈکٹیٹر کہتے ہیں۔ جنھوں نے جمہوریت کے علاوہ ہر بات میں مغرب کی تقلید کی۔

پروفیسر رمضان کاکہنا تھا کہ اگر مشرق وسطی کے ان ممالک میں ایک جمہوری نظام نافذ کرنے میں کامیابی حاصل بھی ہوجائے تو وہ ایک مکمل جمہوری نظام نہیں ہوگا۔

مشرق وسطی اور اسلامی دنیا میں آنے والے انقلاب کے بعد ماہرین اب محدود جمہوریت یا بے لگام جمہوریت کو ان ممالک کے لیے ایک خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

برائن کٹلس پاکستان میں سابقہ فوجی حکومت کے دور سے لے کر موجودہ جمہوریت تک کافی وقت گزار چکے ہیں۔ وہ ایک غیر مستحکم یا غیر شفاف جمہوریت کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں اب وہ نظام آسکتا ہے جیسا کہ آج پاکستان میں ہے۔ جہاں ایک عوامی حکومت ہے، جو الیکشن کے بعد وجود میں آئی۔ جہاں پارلیمنٹ بھی ہے اور رائےکی آزادی بھی۔ لیکن اس کے ساتھ میں ایک سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی ہے جو ہر اہم شعبے میں اپنا اثر رسوخ رکھتی ہے اورجو معیشیت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں اسلامی جماعتیں بھی ہیں جو ایک ایسے نظام کا فائدہ اٹھا رہی ہیں جس میں وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔

جبکہ پروفیسر رمضان اس کے برعکس مشرق وسطی کی تبدیلیوں میں اسلامی گروپوں کے کردار کو بہت اہم قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اسلامی تنظیموں کو آپ انتہا پسند نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ اخوان المسلمیں کی طرح ہیں، القاعدہ جیسی نہیں ۔ اور ان تنظیموں کی شمولیت کے بغیر ان ملکوں میں جمہوری نظام بھی ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی گروپ جو قانون کی پاسداری کرے اور جمہوری نظام کو قبول کرے، اسے سیاسی سطح پر کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو ہم ایک مکمل جمہوری نظام تک نہیں پہنچ پائیں گے۔

پروفیسر رمضان اسلامی دنیا میں ظاہر ہونے والی تبدیلیوں پر اپنے تحفظات رکھتے ہیں جبکہ برائن کٹلس کا کہنا تھا کہ اگر ہم انسانی نکتہ نظر سے دیکھیں تو ہر معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر جمہوری نظام میں کچھ خرابیاں پائی جاتی ہیں اور یہ عوام کا کام ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں پر نظر رکھیں۔

XS
SM
MD
LG