چین نے جب رواں برس سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کے معاہدے کا اعلان کیا تو یہ نہ صرف ایک حیرت انگیز پیش رفت تھی بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں چین کی بڑھتی ہوئی سفارتی دلچسپی اور اثر و رسوخ کی جانب بھی اشارہ تھا۔
حماس کے اسرائیل پر حالیہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال نے جہاں مشرقِ وسطیٰ میں دہائیوں سے جاری اس تنازع میں شدت پیدا کر دی ہے۔ وہیں یہ چین کے لیے بھی ایک سفارتی چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔
رواں برس مارچ میں جب بیجنگ کی ثالثی سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ ہوا تھا تو چینی میڈیا نے اسے خطے میں امریکی برتری کے مقابلے میں چین کی اہمیت میں اضافہ قرار دیا تھا۔
چین کے اعلیٰ ترین سفارت کار وانگ یی نے اس وقت اپنے بیان میں عندیہ دیا تھا کہ ان کا ملک اس پیش رفت کے بعد بھی خطے میں دیگر ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔جو کشیدگی کا سبب ہیں۔
حماس کے اسرائیل پر حملے اور اس کے بعد ہونے والے بھاری جانی و مالی نقصان کے بعد چین نے بہت نپے تلے انداز میں ردِعمل ظاہر کیا ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت یا فریقین سے جنگ بندی کی اپیل کے بجائے دو ریاستی حل کے تحت فلسطینیوں کے لیے آزاد ملک کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔ تاحال چین کے صدر شی جن پنگ بھی اس صورتِ حال پر خاموش ہیں۔
خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق نیدر لینڈ کی یونیورسٹی آف گورننگن سے وابستہ چین مشرقِِ وسطیٰ تعلقات کے ماہر بل فگیورا کا کہنا ہے کہ چین کا حالیہ رویہ اس پراپیگنڈے کے اثر کو کسی حد تک زائل کرتا ہے کہ وہ خطے میں کوئی غیر معمولی کردار ادا کرسکتا ہے۔
موجودہ حالات میں چین کے غیر جانب دارانہ مؤقف پر امریکی اور اسرائیلی حکام نے تنقید کی ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ واضح پوزیشن لینے سے چین کے گریز سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ بیجنگ خطے میں قیام امن کی کوششوں کے لیے بطور ثالث کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کرسکتا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کا محتاط رویہ حیرت انگیز نہیں ہے۔ چین تاریخی طور پر سفارتی کاری میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے لیکن اسرائیل اور حماس کی کشیدگی نے اسے مشکل سے دو چار کر دیا ہے کیوں کہ ایک جانب چین روایتی طور پر فلسطینیوں کا حامی رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ سے اس کی دیرنہ مسابقت ہے۔
منگل کو چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے اپنے بیان میں کہا:’’ ہم فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں آنے والی حالیہ صورتِ حال پر چین کے تحفظات واضح کرچکے ہیں اور فریقین پر فوری جنگ بندی کے لیے زور دیتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ چین مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے تمام فریقوں سے رابطے میں ہے۔
’چین رسک نہیں لیتا‘
کرونا وائرس کے باعث جاری تین سالہ طویل لاک ڈاؤں ختم ہونے کے بعد چینی صدر شی جن پنگ نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے کے لیے سفارتی اثر و رسوخ بڑھانے کے واسطے کوششیں تیز کردی تھیں۔
بیجنگ نے مغربی ممالک کے اتحاد اور تنظیموں سے ہٹ کر برکس جیسے بلاکس سے اپنے تعلقات بڑھانا شروع کیے۔ اسی طرح یوکرین جنگ کے باوجود روس کے مزید قریب ہوا اور مشرقِ وسطیٰ اور گلوبل ساؤتھ میں اپنی سفارت کاری کو مزید فعال کردیا۔
اگرچہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی میں چین کو کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن حالیہ تنازع میں چین اپنی توانائی صرف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ چین عدم مداخلت کی اپنی دیرینہ پالیسی پر کار بند ہے اور یہ پالیسی بعض مرتبہ اس کے بڑی عالمی قوت کے طور پرکردار ادا کرنے کے اہداف سے بھی متصادم ہوتی ہے۔
لندن کے ایس او ای ایس چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اسٹیو سانگ کا کہنا ہے کہ صدر شی کی قیادت میں چین چاہتا ہے کہ اسے مشرقِ وسطیٰ سمیت میں ہر جگہ احترام اور پذیرائی ملے لیکن ساتھ ہی وہ کسی علاقائی مسئلے یا تنازع کے حل میں کردار ادا کرنے کے لیے بھی آمادہ نہیں۔
چین نے ماضی میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع میں دل چسپی لینا شروع کی تھی۔
چین کے خصوصی ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ ژائی جن نے گزشتہ برس اسرائیل اور مغربی کنارے پر حکومت کرنے والی فلسطینی اتھارٹی کے حکام، عرب لیگ اور یورپی یونین کے نمائندوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
ان ملاقاتوں میں اقوامِ متحدہ کے مجوزہ دو ریاستی حل کے تحت آزاد فلسطین کے قیام جیسی تجاویز پر بات چیت کی گئی تھی۔
لیکن فلسطینیوں سمیت خطے کے دیگر فریقوں کے ساتھ محدود تعلقات کی وجہ سے چین کے امکانات بھی محدود ہیں۔ تاہم بعض چینی اسکالر فلسطینیوں کے ساتھ سلوک اور امریکہ کی جانب سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو حالیہ بحران کے اسباب قرار دے رہے ہیں۔
شنگھائی انٹرنیشنل اسٹڈیز یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ فور مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے پروفیسر لیو ژونگ من کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ابراہام اکارڈ کو لاگو کرنے کی کوششیں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ تنازع کا بیرونی محرک ثابت ہوئی ہیں۔
چینی میڈیا کو اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں پروفیسر ژونگ من نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام اور مسئلہ فسلطین کے حل کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
چین کا حماس کی مذمت سے گریز کیوں؟
حماس کی مذمت کرنے سے روس اور ایران کے ساتھ چین کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم سٹمسن سینٹر کے چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر یون سن کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ حماس کے پیچھے کون ہے۔ ممکنہ طور پر اس کی مدد کرنے والوں میں چین کے شراکت دار بھی شامل ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں روس کا مفاد یہ ہے کہ امریکہ کی توجہ اب اسرائیل اور فسلطینیوں کی کشیدگی سے پیدا ہونے والے بحران کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ اس کا فائدہ ایران کو بھی ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں اگر چین حماس کی کارروائی کی مذمت کرتا ہے تو وہ مستقبل میں اس میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی پابند ہوجائے گا۔
چین دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو ایران پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ چین آئندہ دہائیوں کے دوران ایران میں 400 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا عندیہ دے چکا ہے۔ اس لیے اسرائیل میں یہ شکوک پائے جاتے ہیں کہ چین موجودہ حالات میں کوئی واضح پوزیشن اختیار کرے گا۔
چین مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہونے والے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور خطے میں ٹیلی کام اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں میں اس کی بھاری سرمایہ کاری ہے۔ یہ سرمایہ کاری صدر شی کے ون بیلٹ اینڈ روڈ انیشیوٹیو کا بھی حصہ ہے۔
ان حقائق سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خطے میں امن بیجنگ کی اولین خواہش ہونی چاہیے لیکن صدر شی کا اس سلسلے میں کردار ادا کرنے سے گریز بھی واضح ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ریسرچ فیلو جین لوپ سمان کا کہنا ہے کہ چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان استحکام کے لیے مفاہمانہ کردار تو ادا کیا لیکن کسی تنازع کو حل کرانا ایک الگ معاملہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات سے انداہ یہی ہوتا ہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ میں جاری اس تنازع کے حل میں کوئی کردار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس تحریر کے لیے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔