تارکین وطن وطن سے بھری ایک کشتی بحیرہ روم میں لیبیا کے ساحل کے قریب الٹ گئی جس سے بہت سے لوگوں کے ڈوب جانے کا خدشہ ہے۔ اس کشی میں 700 کے لگ بھگ افراد سوار تھے۔
اٹلی کے کوسٹ گارڈ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے کہا کہ 400 افراد کو بچا لیا گیا ہے اور سمندر سے اب تک 25 لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ تاہم کشتی میں سوار افراد کی صحیح تعداد کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان فیڈریکو فوسی نے کہا کہ جب امدادی جہاز اس کشتی کے قریب پہنچے تو کشتی الٹ گئی۔
اس وقت اس کے نچلے حصے میں 100 کے قریب افراد موجود تھے۔ آئرش نیوی کے کمانڈر نے سرکاری ٹیلی وژن ’آر ٹی ای‘ کو بتایا کہ ’’ہمارے بد ترین خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے الٹ گئی۔’’
گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتیاں اکثر اس وقت الٹ جاتی ہیں جب بے چین مسافر امدادی جہاز نظر آنے پر کشتی میں تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔
بحیرہ روم دنیا کے تارکین وطن کے لیے دنیا کی سب سے مہلک سرحد بن گیا ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق اس سال اب تک دو ہزار سے زائد تارکین وطن اور پناہ گزین کشتیوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش میں مارے جا چکے ہیں۔ گزشتہ پورے سال میں یہ تعداد 3,279 تھی۔
بدھ کا امدادی آپریشن جس میں امدادی گروپ ’میڈیسن ساں فرنٹیئرز‘ اور آئرلینڈ اور اٹلی کی بحریہ کے جہاز شامل تھے شام تک جاری رہا۔
اپریل میں 800 تارکین وطن کو لے جانے والی ایک ماہی گیری کی کشتی بحیرہ روم میں ڈوب گئی تھی، جو کئی دہائیوں میں کشتی ڈوبنے سے ہلاکتوں کا سب سے مہلک واقعہ تھا۔ یہ واقعہ یورپ کے تارکین وطن کے بحران کی علامت بن گیا۔
بیس میٹر لمبی یہ کشتی اس وقت الٹ گئی جب وہ اس کی مدد کے لیے آنے والے تجارتی جہاز کے قریب پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔